سدھن گلی: کشمیر میں پیار کی حویلی

تحریر و تصاویر: محمد کاشف علی

اِک اچھے دیوان میں شاعر کا جگر خون ہو کر دوڑتا ہے، اُس میں ساز اور سوز ہر دو کیفیات رچی بسی ہوتی ہیں،
اس میں غم کی بوند یں اور راحت کی بوچھاڑ ہوتی ہے—– دوسرے لفظوں میں یوگی بابا نے کہا تھا، ” دل کو چھو
جانے والا دیوان اپنی اصل میں متنوع ہوتا ہے” تو بس پاکستان جو ہے ناں یہ رب کا دیوان ہے جس میں نوع نوع کے
مصرعے زبانِ خداوندی کے “کن فیکون” کے مظہر ہیں انہی میں سے اک مصرعہ ہے “گلی”—– گلیاں تو بےشمار
آپ نے دیکھ رکھی ہو گی، پرانے لاہور کی گلیاں جہاں تاریخ رک سی گئی ہے، جہاں صدیوں کی چاپ سنائی دیتی ہے
یا پھر گجرات شہر کہ گلیاں جہاں کمہار کے گدھے برتن لادھے چلا کرتے تھے اور شائد آج بھی کسی ٹوٹے کواڑ
سے سوہنی اپنے ماہیوال کی راہ تکتی ہو—– پر یہ گلی وہ گلی نہیں ہے، یہ تو فطرت کا ایک مصرعہ ہے یہ تو کن
فیکون کا لاجواب مظہر ہے، یہ گلی تو وہ مصرعہ ہے جو تمام انسانی دیواوین پر بھاری ہے، یہ ہے سدھن گلی۔
ہندکو اور کشمیری زبان میں گلی درے کو کہتے ہیں، اس گلی سے مراد اسٹریٹ بلکل بھی نہیں ہے۔ سدھن گلی آزاد
کشمیر کے ضلع باغ کے ماتھے کا جھومر ہے۔ سدھن گلی جو کہ سطح سمندر سے تقریباً 7000 فٹ بلند ہے اور بلکل
ایسا ہے جیسے فطرت کا قلعہ ہو یا پھر پیار کی حویلی ہو۔
جیسے محبت عطا ہوتی ہے اکتسابی نہیں اسی طرح سدھن گلی بھی ہر کوئی نہیں جا سکتا بلکہ صرف وہ جسے پیار
کی اس حویلی کی طرف سے کوئی غیبی اشارہ ملے، اذن ملے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اس پیار کی حویلی کی
طرف جانے کا واضح اشارہ مل رہا ہے۔
تو آپ ایک سیلانی ایک کوہ نورد ہیں تب ہی تو آپ ڈھلتی دوپہر میں ضلع باغ پہنچ جاتے ہیں کہ یہ رات آپ کسی ہوٹل
میں گزاریں گے یا زیادہ پکی نسل کے کوہ نورد ہیں تو باغ کے کوہستانی قصبے میں بہتی ندی (نالہ) مَہل کے کنارے
اپنا خیمہ ایستادہ کریں گے اور اگلی صبح آپ کو سدھن گلی جانا ہے۔
ضلع باغ وہی باغ ہے جسے 2005 کے عفریت انگیز زلزلے نے اجاڑ دیا تھا پر انسان تو قرنوں سے حوادث سے
پنجہ آزمائی کرتا آیا ہے اور یہاں بھی یہی کچھ ہوا، ندی کنارے شہر بس چکا ہے، قیام گاہیں آباد ہو چکی ہیں، مطب
سکول سب ہی تو اپنی اپنی جگہ ہیں اور ان کے درمیان کشمیر باسی مان سے گھومتے ہیں۔
بہتر تو یہی ہے کہ کل سدھن گلی جانے سے پہلے خود کو فطرت سے ہم آہنگ کیا جائے اور خود کو مقامی ماحول
میں ڈھالا جائے تو اک چکر باغ کے بازار کا لگانا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ثقافتی نوادرات کے دیس پہنچ جاتے
ہیں۔ سڑک، تعلیم، سفرِ معاش اور میڈیا نے مقامی ثقافت کو وقت کی ریتی پر گِھسا تو دیا مگر آثار تو بافی رہتے ہی ہیں
اور آپ آثار دیکھنے ہی تو گھر سے نکلے ہیں۔ اگر آپ بیسویں صدی کی ستر یا اسی کی دہائی یا اس سے بھی پہلے
کی پیداوار ہیں تو آپ نے لاہور جیسے شہروں میں بھی کرنسی نوٹوں کے وہ ہار تو دیکھے ہوں گے جو دولہا کو
“قربانی” کے وقت پہنائے جاتے تھے، جو کم از کم آج کے جدید لاہور میں تو ناپید ہے—– مگر جب گنگا چوٹی سے

ٹکرا کے واپس آنے والے سرد ہوائیں ہولے سے آپ کے گال سہلاتی ہیں اور پرندے شور مچا مچا کر شام کا سندیسہ
لاتے ہیں تو آپ بازار میں چلتے چلتے رک جاتے ہیں کہ آپ کو آج بھی باغ کے کوہستانی بازار میں نوٹوں والا ہار
ٹنگا نظر آجاتا ہے اور آپ کے مسکرا کے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ شائد بچپن میں آپ بھی ہار کے کنوارے نوٹ چپکے
چپکے اکھیڑتے رہے ہیں۔
اگر تو نازک مزاجی آپ میں رچ بس گئی ہے تو کھانا اپنے ہوٹل میں ہی کھا لیں اور اگرآپ یوگی بابا کے قبیلے سے
ہیں تو یقیناً آپ بازار کے کسی ڈھابے کا انتخاب کریں گے جہاں آپ گھنٹوں مقامی لوگوں میں رچ بس کے انکی ثقافت
اور رہن سہن کے جزو کریدتے ہیں کہ ایک سیاح ہمیشہ سے بےچین خانہ بدوش ہوتا ہے اور ہر نئی جگہ کی کرید
رکھتا ہے۔ آپ دھنی ہے اگر کوئی کشمیری بوڑھا ڈھابے پے ایسا مل جاتا ہے جو کشمیر کا لوک ورثہ آپ پر انڈیل دیتا
ہے، اب یا آپ کا ظرف ہے کہ اُسے اپنی پوشاک بنا لو یا بہہ جانے دو۔
آج دن چڑھتے ہی آپ کو سدھن گلی جانا ہے تو بیداری بھی کچھ جلدی ہی ہونی چاہیے، آپ اپنی قیام گاہ یا خیمے سے
باہر نکلتے ہیں تو مشرق سے ابھرتے سورج کو دیکھتے ہیں اور دیکھتے جاتے ہیں کہ میدانی اور کوہستانی سورج
بھلے ایک ہی ہے پر لگتے دو الگ الگ ہیں ،ماحول کی اضافیت کا اصول سورج کا مقدر بدل دیتا ہے۔ باغ کا سورج
اپنا سنہرا سیال گنگا چوٹی، لس ڈنہ اور سدھن گلی پر انڈیلتا محسوس ہوتا ہے اور “جگ سُونا سُونا” نہیں بلکہ سونا
سونا لگتا ہے اور آُپ خود کو سونے کے پہاڑوں میں گھرا پاتے ہیں—– یقین کرنے کے لیے کہ آپ خواب میں نہیں
آپ گنگناتی سرد مہل ندی کنارے جا پہنچتے ہیں اور اسکا برفناک پانی کچھ زیادہ ہی حقیقت پسندی دیکھلا جاتا ہے۔
جیسے جیسے سورج بلند ہوتا جاتا ہے تو ارد گرد دکے کہسار سنہری سے سبزہ مائل ہوتے چلے جاتے ہیں اور آپ
کشمیر کے پہاڑوں میں سبز چیڑ کے درختوں کی پیوند کاری کے مناظر دیکھتے ہیں—– اور قصبے کی دو مختلف
سمتوں میں لس ڈنہ اور گنگا چوٹی برفوں کی چادریں اوڑھے خوابیدہ ہیں، اور آج سدھن گلی تو جانا ہی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ آُپ ناشتے میں مقامی رنگ آمیزی کرتے ہوئے چائے کے ساتھ کشمیری کلچے بھی رکھ لیں،
کشمیری کلچے بتانے کے نہیں کھانے کے ہیں اور ہاں یاد رہے ان کلچوں کا دور پار کا بھی کوئی تعلق لاہوری نان،
کلچہ سے نہیں ہے۔ یہ اک پہلی ہے جو آپ کو کی سلجھانی ہے مگر باغ جا کر۔ بس یہ سمجھ لیں کہ یہ سدھن گلی کی
طرف سے بلاوے کا غیی اشارہ ہے۔
سدھن گلی باغ سے زیادہ دوری پر تو نہیں ہاں تقریباً پچیس کلومیٹر کا سفر یادگاری اور یادگار ضرور بن جاتا ہے۔ اگر
تو آپ کے پاس اپنی گاڑی ہے تو سدھن گلی پہنچ جائیں اور اگر گاڑی نہیں ہے تو مقامی گاڑیاں آپ کے لیے ہی ہیں۔
وقتی پیمانوں پر سفر کوئی ایک گھنٹے کاہی ہے اور ویسے بھی کشمیر کی پر کیف گھاٹیاں سفر کی طوالت کو کم ہی
محسوس کرواتی ہیں۔ کہتے ہیں پہاڑ دِکھتے ایک جیسے ہی ہیں مگر پہاڑوں کی بھی الگ الگ خشبوئیں ہوتی ہیں اور
آپ باغ کے کہساروں کی خشبوؤں کے ساتھ ساتھ سدھن گلی کو بڑھتے جاتے ہیں، پرندے فضاء بسیط میں اڑان بھرتے
جابجا ملتے ہیں، کبھی راہ میں جھرنا پہاڑوں کی ڈھلوانوں سے گنگناتا آتا ہے اور آپ کی گاڑی کے نیچے سے ہو کر
دوسری طرف کی کھائی میں جا اتصال کرتا ہے، دیکھنے میں یہ جھرنا معمولی ہو سکتا ہے پر انہی معمولی جھرنوں

سے اتصال سے کشمیر کے دو دریا جہلم اور نیلم جوان ہوتے ہیں۔ دور بہت دور پہاڑوں کی گود میں چھوٹے چھوٹے
گھروں کا احساس شائد آپ کو تب ہوتا ہے جب ان میں سے زندگی کی علامت دھواں اٹھتا ہے—– اور انہی راہوں پر
کندھوں پہ بستوں کا بوجھ اٹھائے اسکولی بچے بھی مل جائیں گے اور آپ کی گاڑی کسی سانپ کی مانند لہراتی سڑک
پر پھسلتی جاتی ہے—– اور سرمئی سانپ کے دونوں اطراف چیڑ کے درخت اپنی لامبی لامبی شاخیں پھیلائے برسوں
سے ایستادہ ہیں، ایسے جیسے آپ کسی شاہی سواری میں ہیں اور درخت آپ کے دربان۔
سدھن گلی کے چند دوکانوں والے بازار میں آُپ کی گاڑی محفوظ رہے گی اور سدھن گلی سبزہ زار یاترا کے بعد اسی
بازار میں کھانا بھی کھایا جا سکتا ہے۔ سدھن گلی کیا ہے ایک چراگاہ ہے، سدھن گلی ایک سبزہ زار ہے جہاں کا ہر ہر
شجر محوِ رقص ہو جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں سبزہ زار کا ہر درخت جھوم جھوم کر رقص کرتا ہے مگر
دنیاوی آنکھ کو وہ ساکن نظر آتا ہے اور مولانا کے شیدائی علامہ اقبال کچھ اس طرح خامہ فرسائی کرتے ہیں:
خاموش ہے کوہ و دشت و دریا
قدرت ہے مراقبے میں گویا
اے دل! تو بھی خموش ہو جا
آغوش میں غم کو لے کے سوجا

تو خیر آپ سدھن گلی کے منے سے بازار کے عقبی راہ پر چلتے ہیں اور سدھن گلی کے سبزہ زار میں فطرت کی
آغوش میں خود کو کھو جانے دیتے ہیں، یہ کھو جانا اصل میں خود سے ملنا ہے اور کبھی کبھی تو خود کو وقت دینا ہی
بنتا ہے—– اور آپ یہ وقت خود کو سدھن گلی میں دیتے ہیں جہاں سبزہ ہے اور بھرپور سبزہ ہے، جہاں بادل ہیں اور
آپ کی پہنچ میں ہیں، جہاں وہ مہک ہے جو روح تک کو مہکاتی ہے، جہاں لامبی دُموں والے پکھیروں ہیں اور لمبی
اڑان بھرتے ہیں—– وہاں سدھن گلی کچھ بھی تو نہیں بس (اگر گرما ہے تو) تھوڑے سے پھول ہیں اور جب آُ پ قدم
بڑھاتے ہیں تو گُل بوٹے قدم بوسی کرتے بچھ بچھ جاتے ہیں کہ آپ کے اردگرد بھی پھول ہیں اور نیچے بچھے سبز
مخملی گھاس کے قالین پر بھی انہی پھولوں کے نقش و نگار ہیں، کشیدہ کاری ہے—– یقین مانیئے وہاں کچھ بھی تو
نہیں پر شائد آپ کو کوئی نوعمر چرواہا اپنی بھیڑوں کی سنگت میں مل جائے۔ سارے پہاڑوں کے چرواہے نجانے کیوں
ایک جیسے ہوتے ہیں، شرمیلے سے، میلی سی چادر لیے اور اپنی چھڑی کے ساتھ ۔ ویسے یہ چھڑی بھی بڑی کمال کی
ہوتی ہے کہ پاؤ بھر وزن نہیں ہوتا اس کا مگر سو دو سو من کا ریوڑ بھی ہو تو چرواہے کی سیٹی اور چھڑی کا اشارہ
سمجھتا ہے۔
ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ سدھن گلی کچھ بھی نہیں پر ہاں شائد وہاں بہتا کوئی چھوٹا سا چشمہ مل جائے، ٹھنڈا چشمہ،
برفوں کا مقابلہ کرتا چشمہ۔ داغستان کا رسول حمزہ توف اپنے ادیب و شاعر باپ حمزہ سدا سا کی زبان میں کہتا ہے، “
زندگی میں جھکو تو بس دو بار، شاخ پہ کھلا پھول توڑنے کے لیے یا پھر چشمے کا پانی پینے کے لیے وگرنہ جھکنا
بے مقصد و بیکار ہے۔” تو ادھر سدھن گلی میں فطرت نے ہر دو طرح سے آپ کے جھکنے کا انتظام اور پھول چشموں
نے انتظار کیا ہے۔

ہاں تو اُدھر تو کچھ بھی نہیں —– تو پھر آُپ ایسا کریں درختوں کے جھنڈ میں، گھنے سائے میں مخمور کر دینے والی
ہواؤں میں بیٹھ جائیں۔ نیچے کپڑا بچھانے کی ضرورت ہونی تو نہیں چاہیے کہ سبز مخملی قالین نے صدیوں آپ ہی کا تو
انتظار کیا ہے اور اس پر صرف آپ ہی کو تو بیٹھنا تھا۔ اگر باغ یا سدھن گلی کی ادھ کھلے بازار سے کچھ کھانے کو
لائے ہیں تو اس سے بہتر جگہ کہاں ملے گی کھانا کھانے کے لیے!
سدھن گلی سے آپ کشمیر کے ایک بڑے حصے کا جائزہ لے سکتے ہیں مثلاً باغ قصبہ، لس ڈنہ، بیس بگلہ، بِرپانی،
ملوٹ، دھیر کوٹ اور گنگا چوٹی جو سطح سمندر سے دس ہزار فٹ سے کچھ اوپر ہی ہے اور عظیم ہمالیہ کی پیر
پنجالی گوٹھ میں واقع ہے۔ اگر تو سرما میں برفیں کھل کر پیر پنجال پر پڑتی ہیں تو گرما میں بھی گنگا چوٹی برفوں میں
ملفوف نظر آتی ہے وگرنہ “سَترپوشی” اسکی تھوڑی سی کھل سی جاتی ہے۔ گنگا چوٹی سدھن گلی سے کچھ دور نہیں،
تھوڑی سی چڑھائی ہے اور دو تین گھنٹوں کی ٹریکنگ گنگا چوٹی پہنچا دیتی ہے- اگر کوہ نورد گنگا چوٹی نہیں بھی
جانا چاہتا تو سارا دن سدھن گلی کے سبزہ زار میں آوارہ ہرن کی طرح گھوم سکتا ہے، شجر شماری کر سکتا ہے،
درختوں کی پھیلی بانہوں میں پرندے تلاش کر سکتا ہے، تتلیوں کے رنگوں کے امتزاج کا جائزہ لے سکتا ہے، اگر مون
سون ہے تو کھمبیوں کی نسلیں گن سکتا ہے، اپنے پیارے کو لیے پھول چن سکتا ہے اور ہاں اگر آپ سرما کے جوبن
میں سدھن گلی جاتے ہیں تو آپ واقعی قابلِ رشک ہیں کہ سرما میں سدھن گلی سبز لبادہ اتار کر برفوں کی سیمیں پوشاک
اوڑھ لیتی ہے اور اس موسم میں گلی کا “کنوارہ پن” اپنا آپ، آپ کے قدموں میں نچھاور کر دیتا ہے کہ اس موسم میں
بہت کم کوہ نورد آتے ہیں اور غلاظت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے تو بس سدھن گلی کا سارے کا سارا حسن، سارا
سرمایہ، ساری خموشیاں، ساری برفیں، سارے پکھیروں اور سارے رُکھ صرف اور صرف آپ کے ہوتے ہیں۔
تو سدھن گلی نے تو آپ کو غیبی واضح اشارہ دے دیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بلاوا ہی دے دیا ہے۔ اب آپ کو خود
پہ “خانہ بدوشیت” طاری کرنی ہے اور یہ گلی آپ کی ہوئی۔
ہاں بس کلفت و شدید ترین الجھن کی ساعتیں تب اترتی ہیں ایک کوہ نورد پر جب وہ اِس کائناتی دیوان میں کچھ بے وزن
اور بحر سے بچھڑے ہوئے مصرعے کچرے کے صورت میں دیکھتا ہے، قسم سے حسِ جمالیات کا اگر دل ہوتا تو ان
غلاظت آمیز مصرعوں پر کب کا فیل ہو چکا ہوتا۔

Add a Comment

Your email address will not be published.