آنسو جھیل: کاغان و ناران کا ایک نگینہ (سن دو ہزار چار کی داستان)

تحریر و تصاویر: ڈاکٹر محمد کاشف علی


یوگی بابا کہتے ہیں کہ ہر انسان میں ایک عدد خانہ بدوش، آوارہ گرد، چرواہا یا بکروال چھپا ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یوگی بابا انسانی رویوں، جذبات اور احساسات کے تنوع کی بات کرتے ہیں۔ انسانی تنوع نے انسانوں کو نجانے کب سے پر لگا کر اڑنا سکھا دیا ہے۔ یکسانیت سے تنگ آئے ہوئے خاکی دیوانے تغیر چاہتے ہیں، کچھ نیا چاہتے ہیں۔ میدانوں والے سبزہ زاروں کو دوڑتے ہیں، پہاڑوں والے بسے اور ٹھنسے ہوئے شہروں کی طرف بھاگتے ہیں، صحرا والے پانی چاہتے ہیں اور پانی والے کڑاکی دھوپ کی تلاش میں ہے۔
وادیِ کاغان ایسے ہی ایک تغیر کا نام ہے۔کاغان سبز دیوی کی آماجگاہ ہے۔ دیوی نے اپنی سبز ردا کو سرمست ہواؤں کے دوش پرپھیلا رکھا ہے۔وادی کیا ہے پھولوں، پودوں، ندی نالوں،گلشیئرؤں ، آبشاروں اور درختوں کے بیچ کہیں کہیں قدرت نے خاکی دری بچھا رکھی ہے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر وادی کا حسن وادی کی داستانوی جھیلوں میں پوشیدہ ہے۔کوئی وجہ ایسی نہیں کہ کاغان کو جھیلوں کی سرزمین نہ کہا جائے جبکہ اس دیومالائی وادی میں جھیل سیف الملوک ہے اور اس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ کسی کے سامنے اسکی تعریف کرنے سے بہتر ہے کہ اُسے جھیل سیف الملوک کے نظارے کی دعوت دے دی جائے کیونکہ جھیل کے سراپا کو بیان کرنے سے لفظ قاصر ہیں۔ اِسی وادی میں جھیل جٹی، جھیل لولو سر، جھیل دودی پت سر، ست سری مالا(ایک دوسرے میں گرتی سات چھوٹی جھیلیں)جھیل جلکھڈ(چاند جھیل) اور آنسو جھیل ہے۔
آنسو جھیل کو دیکھنے والا فیصلہ کرسکتا ہے کہ خوشی وغم صرف انسان جاتی سے منسوب نہیں بلکہ زمین کے سینے پر پنجے گاڑھے، غرور سے سر بلند کئے پتھروں پر مشتمل اجسام، پہاڑ بھی رو دیتے ہیں اور پھر ہزاروں فٹ کی بلندی پر آنسو شکل کی ایک جھیل وجود میں آجاتی ہے۔
آنسو جھیل تک رسائی کے تین راستے ہیں۔ مہانڈری کے مقام پر جب آپ مرکزی روڈ سے دائیں طرف اترتے ہیں تو منور روڈ آپ کو بیاڑی تک لے جاتا ہے یاد رہے یہ روڈ صرف جیپوں کو اپنے سینے پر مونگ دلنے کی اجازت دیتا ہے۔ بیاڑی سے آگے کچ پاس(درہ کچ)ہے۔کچ پاس کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے آپ کہسار کے رخسار پر کسی نامکمل خواہش کی تجسیم، آنسو جھیل تک پہنچتے ہیں کہ آپ کی خواہش نامکمل نہ رہے۔دوسرا راستہ کاغان گاؤں سے آپ کو جنگلوں میں لے جاتا ہے۔ آپ رنگ برنگے پرندوں کی اڑان کو نظر میں رکھتے ہوئے، ان کے سریلے گیت سنتے ہوئے کچ پاس پہنچ جاتے ہیں اور آگے کا خاموش راستہ آپ کی راہ تکتا ہے۔ تیسرا راستہ دونوں راستوں سے زیادہ حسن ور اور مسرور ومسحور کر دینے والا ہے جو ناران سے شروع ہوتا ہے۔ ناران سے جیپ روڈ پر آپ لاابالی انداز میں چلتے ہوئے صدیوں کی کلپنہ کے کنارے لگتے ہیں۔ ایک خاص موڑ مڑتے ہی خود کو جھیل سیف الملوک کنارے پاتے ہیں۔ جھیل کے اُس پار کا سفر کرتے ہوئے، ڈھلانوں پر ہمت آزمائی کرتے ہوئے آپ کچ نالہ پار کرکے مرمریں جھیل آنسو کی یاترا مکمل کرتے ہیں۔تو آئیے اسی راہ پر چلتے ہیں۔
صبح سویرے کاغانی پنکھ پکھیرو جب آپ کو بیدارکردے تو آپ ایک عدد انگڑائی لے کر ہوٹل سے با ہر یا اس کی چھت پر آجائیں پھر دیکھیں کہ ناراں کی صبح کیسی تراوت انگیز ہوتی ہے۔۔۔سرد مگر دل کو گرم کر دینے والی ۔۔۔ کنہار(دریا)کنارے جاکر وادی کا مکمل احساس من میں بسانے کے لئے برفناک پانیوں سے منہ دھونا برا خیال نہیں۔ جیپ اگرچہ تیار ہے کہ آپ کو صرف آدھے گھنٹے میں جھیل سیف الملوک کنارے اگل آئے لیکن آپ اگر سچے آوارہ گرد اور ازلی خانہ بدوش ہیں تو یقیناآپ تین گھنٹے پیدل چلنا گوارا کرلیں گے۔ راہ میں آپ رنگ برنگے پرندوں کو اپنے سنگ گاتا دیکھ کر ان کی سنگت اختیار کرنا چاہیں گے۔ دائیں بائیں سے سبز جنگلوں کی ہوائیں آپ کو خوش آمدید کے سند یس بھیجیں گیاورآپ منزلِ شوق کی طرف چلتے جائیں گے۔ لیکن آپ کو رکنا پڑے گا کہ آپ کی راہ میں ایک منا سا گلشیئر آگیا ہے جو سرد آہیں بھر بھر کر بیتے زمانوں کی داستانیں سناتا ہے اور آپ سنتے ہیں اور پھر ایک سرد آہ بھر کے آگے کو روانہ ہوجاتے ہیں۔ جیسے جیسے آپ بلندی کیطرف جاتے ہیں اسی تناسب سے آپ کے گردونواح میں درخت چھدرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں ان کے قد میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے مگر جھیل سیف الملوک کی طرف سے آنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آپ کے چہرے کو سہلا کر ہوا ہو جاتی ہیں اورجب آپ سر اوپر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو سفید آسمان پر نیلے بادلوں کے پرے آپ کے سنگ چل رہے ہیں۔۔۔آپ کو چلنا ہے اور آپ سیف الملوک ناڑ(نالہ)کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہ نالہ آپ کی ہمت بڑھاتا اور یوں گویا ہوتا ہے ’میں وہاں سے آرہا ہوں جہاں تم کو جانا ہے اگر میں جھیل سے جدا ہو کر نیچے کنہار سے وصال کرسکتا ہوں تو تم کنہار سے میرے کنارے کنارے سفر کرتے جھیل تک پہنچ بھی سکتے ہو۔‘ ایک مقام پرآپ سیف الملوک ناڑ کودائیں طرف پار کرتے ہیں تو ٹھنڈک کے ساتھ آپ کی خوشیوں کا کینوس بھی پھیلنے لگتا کیونکہ اب آپ ان پھولوں کے درمیان ہیں جو کسی کائناتی لمحے میں صرف اور صرف آپ کے لئے کھلے تھے۔آپ کے پھولوں کے کینوس پر زیادہ رنگ پیلا، سفید اور جامنی ہے،تھوڑا آگے چل کر جب جیپ روڈ جس پر چل کر آپ یہاں تک پہنچے ہیں، کافی کشادہ ہو جاتا ہے توآگے ایک موڑ آپ کو نظر آئے گا اور یہ وہی خاص موڑ ہے جس کے پار آپ کی کلپنہ جھیل سیف الملوک پہاڑوں کی گود میں شیر خوار بچے کی طرح خوابیدہ ہے اور آپ پہلی بار جب جھیل کو دیکھتے ہیں توخود کھو سے جاتے ہیں جیسے حصولِ عشق پر آپ کو خود یقین نہ آرہا ہو۔کوہستانی بانہوں نے جھیل کے پانیوں کو سمیٹ رکھا ہے۔جھیل کا سفید پانی آئینے کا کام کرتا ہے۔ یہ جھیل رنگ بدلنے میں گرگٹ کی بھی استاد ہے۔ ہر پہر ، ہر موسم میں اس کا رنگ الگ ہوتا ہے۔ بادلوں کا پیٹرن تبدیل ہوتے ہی اس کا رنگ کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔جب سورج پہاڑوں کے پیچھے گرنے والا ہوتا ہے تو جھیل دورنگی ہوجاتی ہے ایک رنگ سائے میں زرا گہرا ہوتا ہے تو دوسرا سورج کی مرتی لالی کا رنگ جو شام چھا جانے کا اعلان کرتا ہے۔ آپ بڑے دھنی خانہ بدوش ہیں اگر آپ جھیل کنارے کیمپ کرتے ہیں۔ اگر یہ چاند کی وسطی راتیں ہیں تو پھر تو آپ کی قسمت پر رشک کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔سات آسمانوں کا سنا تو آپ نے بھی ہے اور سنا میں نے بھی ہے لیکن آج تک میں صرف دو آسمان دیکھ پایا ہوں جو آپ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ چاند کی وسطی راتوں میں جھیل کنارے اپنے کیمپ سے باہر کا زرا نظارہ تو کیجیے۔۔۔محدود و لا محدود سے ماورا آسمان آپ کے سر کے اوپر تو ہے ہی مگر ایک محدود آسمان جھیل کے ساکن سینے پر پھیلا دیا گیاہے جس میں ستارے، سیارے اور چاند سب کچھ ہی تو ہے۔۔۔اوراُن دائروں نے جھیل کے سینے پر پڑی سماوی چادر کو اور آپ کے عکس کو دھندلا دیا ہے جو آپکے پھینکے گئے ایک سنگریزے نے پیدا کیے تھے۔
سرسراہٹ سی ہوتی ہے اور سردہوا آپ کے خیمے سے ٹکرا کر(اگلی) صبح کا اعلان کرتی ہے۔۔۔تھوڑی دیر میں سب ناشتہ کرکے چائے نوش کر چکے ہیں۔سردی کا احساس تب ہوتا ہے جب گوشت پوست کے نیچے ہڈیوں کو ہوائیں برفانی نشتر چبھوتی ہیں۔۔۔کان برف تو نہیں مگراس سے زیادہ سرد تو لازمی ہیں اور ناک۔۔۔وہ سرخ ہے۔ ایسی ہی سرخی آپ کو مشرق میں بھی نظر آتی ہے اگرچہ دھند کے غلاف نے وادی کو ملفوف کر رکھا ہے مگر سورج، جو کبھی انسان کا بہت بڑادیوتارہا ہے، اپنا آپ منوانے کے لئے دھند کے غلاف میں مسلسل شگاف ڈالے جا رہا ہے۔۔۔ایسے میںآپ ہاتھوں میں واکنگ اسٹک لئے اپنے مقامی گائیڈ کے پیچھے ہو لیتے ہیں کہ کسی طور آنسو کو نکلے۔۔۔چاہے آنسو ہی نکلے۔
جھیل سیف الملوک سے جھیل آنسوتک آپ خراماں روی سے چلتے ہوئے، رکتے ہوئے، راہ میں ’خرمستیاں‘کرتے ہوئے چار سے پانچ گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ اگرچہ سیف الملوک سے خچر اور گھوڑے مل جاتے ہیں جو آپ کا وزن’برداشت‘کر سکتے ہیں مگر بھلے وقتوں میں یوگی بابا نے کہا تھا کہ آوارہ گرد اور خانہ بدوش گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں بیٹھتے کہ انہیں کہیں پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی۔
جھیل سیف الملوک کنارے چلتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے دو تین گلشئیروں کو پار کرتے ہوئے جھیل کے اُس پار(مشرق کی طرف) درہ آجاتا ہے، وادی قدرے تنگ ہوجاتی ہے اور نالہ، بے شور نالہ آپ کے ساتھ ہے۔۔۔۔ شرر شرر کی مدہم اور سروں سے بھرپور آوازیں آپ کو سنائی دے رہی ہیں جو دورپہاڑوں پر سے پھسلنے والے پانیوں کی صدائیں ہیں۔۔۔دھند کا غلاف لیپیٹا جا چکا ہے اور آسمان بے جوڑ ہے اس میں بادلوں کا کوئی پیوند نہیں ہے۔۔۔سورج ابھی چونکہ پہاڑوں کے شانوں سے زرا ہی اونچا ہے اسی لئے تو آسمان کچے نیلے رنگ کا نہیں بلکہ پکے نیلے رنگ کا ہے۔۔۔ہواؤں میں سے برف کا احساس تھوڑا سا کم ہو چکا ہے۔تھوڑی دیر بعد آپ خود کو قدرے وسیع وادی میں پاتے ہیں۔۔۔ہموار میدان میں سر سبز گھاس کا سر اٹھاہوا ہے اور آپ اس پر بوٹ رکھ کر اسے دباکے آگے نکل جاتے ہیں۔ تقریباً دو اڑھائی کلومیٹر کے سفر کے بعد آپ ایک نرم خو نالے کے بڑے بڑے پتھروں پر بڑے بڑے قدم رکھ کر پار کرتے ہیں۔۔۔۔اور بیس کیمپ سامنے ہی ہے۔۔۔۔جی ہاں مقامی گائیڈ اسے جھیل آنسو کا بیس کیمپ کہتے ہں۔ آپ واکنگ اسٹک اور اپنے بیگ وغیرہ سبز زمین پر رکھ کر خود کو ایک بڑے پتھر پر تختہ کر دیتے ہیں۔ آپ کے پاس ہی خیمہ چائے خانہ ہے اگرچہ کہنے کو اس کا نام ’آبشار ہوٹل‘ ہے۔اس ہوٹل سے چائے، بسکٹ اور نمکو وغیرہ سے زیادہ کی توقع رکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ آپ کے ٹریک کا آخری ’ہوٹل‘ ہے اس کے بعد آپ کو ’زادہِ راہ‘ کہیں سے ملنے والا نہیں۔ اگر آپ کے بیگ میں دوپہر کا کھانا، نمکو، بسکٹ، بوتل وغیرہ ہے تو بھی اس کوہستانی خیمہ چائے خانے کی صرف ایک چائے کی پیالی آپ کی زندگی کی حسین یادوں کا حصہ بن سکتی ہے۔ ملکہ پربت کے سائے میں چوڑے چکلے پتھر پر یوگا انداز میں نشست جما کر سرد ہواؤں کے سنگ گرم چائے پینے والے آفاقی لمحات بھی بھلا کبھی بُھلا پائے گے آپ۔۔۔۔چند منٹوں کا یہ قیام کوہ نورد کو پھر سے تازہ دم کر دیتا ہے اور وہ سامنے ملکہ (پربت) کی سفید برفوں کو دیکھتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کو چلنا شروع کردیتا ہے۔ اب اسے صرف چلنا نہیں بلکہ چڑھنا ہے کیونکہ نسبتاً ہموار ٹریک اب پیچھے رہ چکا ہے۔۔۔۔سامنے تنگ اور قدرے عمودا ٹریک ہے۔۔۔بلندی ایک دم بڑھتی ہے اور پاؤں کے نیچے سنگریزے اپنی جگہ جلدی جلدی بدلتے ہیں اور آپ اوپرکو جاتے ہیں مگر سنگریزوں کی کوشش نیچے واپس بھیجنے کی ہے۔۔۔۔اسی مقام پر کچ گاؤں ہے جو ٹریک سے نظر نہیں آتا کیونکہ وہ دائیں طرف نظر آنے والے پہاڑوں کی اوڑھ میں ہے۔۔۔۔ٹریک کے بائیں طرف گہری وادی ہے جس کی تہہ میں نالہ ایک معصوم سانپ کی طرح پھنکارتا ہے اور نالے سے پرے اور اوپر ملکہ آپ کو دیکھ کر مسکراتی ہے۔۔۔۔یہ ایسی ملکوتی مسکراہٹ ہے جو آپ کو تھکنے نہیں دیتی۔۔۔۔۔اضافیت کا اصول جن کی سمجھ میں نہ آتا ہو ان کے لئے لازم ہے کہ وہ کوہ نورد بن جائیں کہ جب کبھی وہ سیف الملوک سے آنسو جھیل کے ٹریک کو نکلیں گے تو جیسے جیسے وہ بلندی کی طرف رواں دواں رہیں گے ملکہ کی بلندی گرتی جائے گی ۔۔۔۔آنسو جھیل پر پہنچ کر ملکہ (کی چوٹی)آپ سے صرف تھوڑی سی ہی بلند لگتی ہے۔۔۔۔لگتا ہی نہیں کہ ملکہ سطح سمندر سے 17390 فٹ بلند ہے۔۔۔۔بلکل ایسا لگتا ہے کہ آپ ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتے ہیں، چوم سکتے ہیں اور تھک کر اس کی سفید گود میں سر رکھ کر سو بھی سکتے ہیں۔۔۔۔یہاں سے آپ ملکہ کی تکونیں دیکھ سکتے ہیں جو گہرے سرمئی رنگ کی ہیں اور ان کی ڈھلوانوں پر برفوں کی دبیز چادریں پڑی ہیں۔ کوہ نورد سرمئی دیوی کے سفید لبادے پر نظریں جمائے اپنی دھن میں آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے تو دائیں طرف کی کوہستانی دیواروں سے کچ نالہ گنگناتا، سازو سوز میں ڈوبا آپ کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔۔۔۔ اس کا پانی ٹھنڈا نہیں بلکہ برفآب ہے کیونکہ اس نالے کی کوکھ مزید بلندی پر موجود گلشئیر ہے۔۔۔۔۔یہ راہ میں آنے والا آخری شفاف اور بلوریں سرد اور میٹھا پانی ہے (اور اس کے بعد جھیل کاپانی ہی آپ کے زیرِ استعمال آسکتا ہے) چنانچہ بوتل، فلاسک، چھاگل، مشکیزہ یا جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے اس کا اور اپنا شکم بھر لیں۔۔۔۔کچ نالہ پار کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے نسبتاً ہموار میدان (ڈنہ) آجاتا ہے۔۔۔۔عجب نہیں کہ وہاں آپ کو بھیڑ بکریاں سبزے پر منہ مارتی نظر آجائیں اور بکر وال کسی پتھر پر بیٹھا اپنی چھڑی سے زمین کو کرید رہا ہو یا ’ٹھٹھرا‘ ایک بوٹی تلاش کر کے کھا رہا ہو کہ اس سے بلندی پر آنے کی وجہ سے سر میں جو گرانی پیدا ہوتی ہے، وہ کم ہو جاتی ہے۔۔۔۔یا شائد بکروال پتریس (بوٹی) کی تلاش میں ہوجو معدہ کی دوا میں بنیادی جزو کے طور پر استعمال ہو تی ہے۔۔۔۔پھولوں پر تتلیاں اور بھونرے یورش کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔مگر آپ زیادہ دیر رکتے نہیں ہیں اور ایک نگاہ ملکہ کے ابھرتے کچے حسن پر ڈالتے ہیں۔۔۔۔ ایک پل کے لئے اپنے بائیں طرف نیچے بہت گہرائی میں نالے کو جھک کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور فوراً پیچھے ہو کر اپنے دو تین فٹ چوڑے ٹریک پر پاؤں آگے پیچھے رکھتے چل پڑتے ہیں۔۔۔۔سردی کا احساس بڑھ کرآپ کو اس چیز کا سندیس دیتا ہے کہ آپ برف زاروں کی راجدھانی میں داخل ہو چکے ہیں۔۔۔ہوائیں شدت اختیار کر لیتی ہیں اور سورج بھی اپنا آپ بادلوں کے پیچھے چھپا لیتا ہے۔۔۔۔ تو آپ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ جولائی اگست میں بھی آپ کے پاس گرم کپڑے تو ہونے ہی چاہیے ۔۔۔۔خصوصاً اگر آپ کی منزل جھیل آنسو ہے۔
سامنے پتھروں کے ڈھیر ہیں مگر وہ چھوٹی سی لکیر جس پر چل کر ہم یہاں تک پہنچتے ہیں کہیں کھو گئی ہے۔۔۔۔اگر آپ ابھی مکمل خانہ بدوش نہیں ہیں اور کوئی گھوڑا یا خچر جھیل سیف الملوک سے اپنے ساتھ لائے ہیں تو اس مقام سے آگے جانا اس کے بس میں نہیں کیونکہ وہ آپ کی طرح پتھروں پر اچھل کود نہیں کر سکتا۔۔۔۔آپ کا گھوڑا یا خچر یہاں پر آرام اور آپ کے آنے کا انتظار کرے گا۔۔۔۔اس جگہ کا نام اسی وجہ سے ’گھوڑا سٹاپ‘ ہے ۔۔۔۔ گھوڑا سٹاپ سے آگے کچی برفوں کے سنگ سنبھل سنبھل کے اپنی اسٹک، قدم قدم بڑھا کر آپ ایسی بلندی کی طرف دیکھتے ہیں جو آسمانوں کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔ ایک کہساروی دیوار۔۔۔۔ایک کہساروی چادر عبور کرتے ہی آپ انتہائی بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور آپ کا سر جو فخر اور خوشی و سرشاری سے بلند ہو نا چاہیے وہ جھک جاتا ہے۔۔۔۔کیونکہ آنسو جھیل آپ کے دائیں ہاتھ، نیچے پیالہ وادی میں ہے۔۔۔۔پتھریلے پیالے کے پیندے میں چھوٹی سی جھیل برفوں کی جھالر اپنے کناروں پر بکھیرے توجہ کا مرکز بنتی ہے۔
اپنے اکلاپے اور ہزاروں، لاکھوں برس کی تنہائیوں پر جب پہاڑ اپنی گلشیائی آنکھوں سے روئے تھے تو آنسو جھیل، تجسیم ہوئی تھی۔ آپ صرف کوہستانی آنسو دیکھنے تیرہ چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر آتے ہیں جہاں پر آکسجن جمع کر کے آپ کو سانس میں سمونا پڑتی ہے۔۔۔۔یہ جھیل منور دریا کا منبع ہے۔۔۔۔آپ اپنی تمام تھکاوٹیں جھیل کے سپرد کردیتے ہیں۔۔۔۔یہاں انتہائی تیز اور سرد ہوائیں چلتی رہتی ہیں ۔۔۔۔سورج اور بادلوں میں ازلوں کا آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہتا ہے۔۔۔۔کب وسیع لینڈ سکیپ دھندلا جائے یعنی دھند چھا جائے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔دھند چھانے میں۔۔۔۔ سورج نکلنے اور چھپنے میں۔۔۔۔۔بارش کی پھوار پڑنے میں اور پھر دھوپ کی تیز چادر پھیلنے میں منٹوں کا وقفہ ہو تا ہے۔۔۔۔ بادل دیکھنے کے لئے آپ کو اوپر نہیں بلکہ اردگرد دیکھنا پڑتا ہے۔۔۔۔ یقیناً آپ بادلوں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔اگر ہوا زرا دیر کو تھم جاتی ہے اور بادل بھی موجود ہیں تو بھیگنے کے مواقع بہت زیادہ ہیں۔۔۔۔۔جھیل کنارے بڑے بڑے پتھر بارش سے بچانے کی ناکام کوشش کرسکتے ہیں۔۔۔۔ہاں اگر آپ کے پاس واٹر پروف اَپر یا برساتی ہے تو بادلوں میں کھڑے ہوکر بادلوں کو برستا دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔ جھیل کنارے کھانا، ناچ گانا سب کچھ چل سکتا ہے۔۔۔۔ایک ڈھڑھ گھنٹے میں جھیل کے نظاروں۔۔۔۔یخ پانیوں۔۔۔۔تاحدِ نظر تک پھیلے ہوئے برف پوش کہساروں کو آپ اپنے والے دنوں کے لئے محفوظ کر لیں۔۔۔۔اِس وقت آپ اپنے مستقبل کے ماضی میں کھڑے ہیں اپنے مستقبل کے ماضی کو یہاں آپ رنگین کر سکتے ہیں۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ صرف یادوں کے سہارے زندہ رہیں گے۔۔۔۔اور آنسو جھیل جیسی رنگین یادیں تو بڑھاپے کو جوانی عطا کر سکتی ہیں۔
ڈھلتی دوپہر میں آپ جھیل سیف الملوک کوواپس اترتے ہیں۔۔۔۔ اترائی کا سفر نسبتاً آسان ہے۔۔۔۔ لیکن آسان نہیں۔۔۔۔جب شام رات سے گلے ملنے والی ہوتی ہے تو آپ سیف الملوک پہنچ جاتے ہیں۔۔۔۔جہاں آپ کے خیمے نصب ہیں۔
اگر آپ آنسو جھیل سے اپنے ٹریک کو طویل کرنا چاہتے ہیں تو رات آپ کو آنسو جھیل کنارے کیمپ کرنا پڑے گا اور صبح کو آنسو جھیل کے اُس پار اتر جائیں۔۔۔۔برفزار کچ پاس کو پار کرتے ہوئے، بیاڑی سے ہوتے ہوئے آپ مہانڈری پہنچ سکتے ہیں۔جہاں سے آپ کاغان، کیوائی شوگران یا بالاکوٹ وغیرہ جاسکتے ہیں۔ اگر تو آپ نے صرف جھیل سیف الملوک سے جھیل آنسو اور واپس سیف الملوک تک کا ٹریک کرنا ہے تو آپ کو سیزن میں سیف الملوک کنارے کرائے پر کیمپ مل سکتے ہیں لیکن اگر آپ کا ارادہ آنسو جھیل سے آگے مہانڈری جانے کا ہے تو آپ کے پاس اپنا ذاتی کیمپ ہونا چاہیے جو آپ آنسو جھیل کنارے گاڑھ سکیں۔

Add a Comment

Your email address will not be published.