کالاش کی رمبور گھاٹی: بہوک چھت کی گمشدہ راہیں اور ایک ڈائن ندی

تحریر و تصاویر: ڈاکٹرمحمد کاشف علی

اور پھر جب مون سون (جولائی 2015) میں چترال اور سلسلہ کوہِ ہندو کش غیر دوستانہ ہو گیا اور ہم (ایک عدد نصف
بہتر اور تین ہمارے نقشِ فریادی) کالاش میں تقریباً 20 دنوں کے لئے محصورہی کیا بس “حنوط” ہو کر رہ گئے۔ گیا تو
میں دو شد چسکے میں تھا کہ ایک تو اپنی پی-ایچ-ڈی کی تحقیق کے لئے مواد اکھٹا کر لوں گا اور دوسرا یہ کہ کچھ
ٹریک ٹرخانے کا من بھی تھا۔ پر ڈَرن چاچا (کلاشا زبان میں ڈرن سے مراد سیلاب) نے تو ہم کو کالاش کی رمبور
گھاٹی کے گروم گاؤں میں باندھ سا رکھا تھا۔ راستے مفقود تھے، پل مخدوش تھےاور وادی میں خوراک مسلسل کم ہوہتی
جا رہی تھی اور خوف کے سائے کہیں میرے اندر تک سرائیت کرتے جا رہے تھے کہ اس کے بار پہاڑوں میں میرے
ساتھ میرے کمسن (اڑھائی برس سے گیارہ برس تک کے) بچے بھی تھے۔ گنتی کی چند ہی تو دوکانیں ہیں وادیِ رمبور
میں جہاں سے مجھے چاکلیٹ، بسکٹ، نمکو وغیرہ کی “ذخیرہ اندوزی” کے بعد راشن بندی بھی کرنا پڑی، “بعد از
سیلاب کَتھا، قصہ مختصر” کہ ہم رمبور کی گھاٹی میں کوہِ ہندو کش کی وسعتوں میں باقی پاکستان سے کٹ کر رہ گئے
تھے جہاں میں اپنے مقامی دوست محمد خان حسن کالاش کے روائیتی گھر میں مقیم تھا اور ہم ان کا راشن بھی شکم کا
حصہ بناتے جارہے تھے۔ دو چار دن تو میں گروم، کالاش گروم، بالا گرو اور سجی گور تُھن کے کوہستانی گاؤں میں
مخدوش حالات کے باوجود اپنی تحقیق کی شکم پُری کرتا رہا جبکہ بمبوریت اور بریر کی وادیوں کو جاتے سارے راہ تو
مخدوش تھے کہ وہاں تک لے جانے والے جیپ روڈ کو سیلاب کا عفریت بہا کے لے جا چکا تھا۔ اب میں گھر تو بیٹھا رہ
نہیں سکتا تھا کہ وادی میں جا کر ‘خانہ بدوشیت’ کہاں نچلا بیٹھنے دیتی ہے۔ تو بس میں گھر والوں کونیچے وادی میں
چھوڑ کے خود محمد خان حسن کے ساتھ دو دنوں کے لئے اوپر پاک افغان سرحد کی قربت میں جنگل اور چراگاہوں
میں چلا گیا جہاں سے امڈ امڈ کے سیلاب آرہا تھا۔ دو ‘بڑوں’ (حسن اور میں) میں طے یہ پایا کہ ایک دن کی مسافت پر
بہوک جنگل سے ہوتے ہوئے بہوک چھت (کلاشا میں چھت مراد جھیل) جایا جائے جہاں وادی بھر کے چرواہے اپنے
اپنے ریوڑکے ساتھ بہوک چراگاہ میں موسمِ گرما گزارتے ہیں، ہمیں ان چرواہوں کے سنگی کمین گاہوں میں، قربِ
افغانستان میں، بس ایک یا دو راتیں گزارنی تھیں۔
بقول یوگی بابا، ہونی ہو کر رہتی ہے اور وہ ہو کر رہی کہ گروم گاؤں سے پلاروگ اور پلاروگ سے راہوالیک گاؤں
تک ٹریک نسبتاً سہل تھا بعد میں وہ ہی آنکھیں دیکھانا شروع ہو گیا- چیڑ، دیودار، اور صنوبری اپسرائیں گھاٹی کو

دونوں جانب، ندی کے کناروں سے اوپر کو اٹھتی محوِ رقصاں تھیں کہ مون سون کا آلاپ اپنے جوبن پر تھا اور پوری
گھاٹی نے سبز ردا اوڑھ رکھی تھی —— راستے کی بپھری بہوک ندی لپک لپک کے گلے کو آتی تھی اور اس پر قائم
لکڑٰی کے تھرتھراتے پل ہفتہ پہلے ہی کہیں سے کہیں پہنچ چکے تھے—– بہوک ندی کو تین چار بار ہم نے ایک
دوسرے کا ہاتھ پکڑ کے پار کیا، ایک بار تو حسن کا جوتا ندی کی نذر ہوا ایک بار میں بچا اور اچھا خاصہ بچا، ویسے
ہمت توڑ قسم کی ندی تھی جو غراتی بھی تھی، دھمکاتی بھی تھی اور جب ہم پاؤں پاؤں اس کو پار کرتے تھے تو اندر
ہی اندر ہی سنگ باری بھی کرتی جاتی تھی کہ پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ سنگریزے جیسے گولیوں کی طرح آ آ کر
لگتے ہو—– جب سہ پہر ہمیں الوداع کر رہی تھی ہم مِیکی نِیلی کا ایک واقعی میں بہت چھوٹا سا دیہات پار کر رہے
تھے جہاں رمبور گھاٹی کے آخری چند ایک گرمائی گھر ملتے ہیں پھر جنگل ہوتا ہے اور آپ ہوتے ہیں یا اوپربہت اوپر
بہوک چھت —– اور بہوک چھت جانے کی کسک آپ کو کھینچے چلی جاتی ہے۔
حسن کا اصرار تھا کا میکی نیلی ایک منا سا کوہستانی گاؤں ہے پر سرِ راہ مجھے تو چار سے پانچ سنگ وچوب کے
گھروں کے ڈھانچے نظر میں پڑتے تھے۔ میکی نیلی تک تو پھر بھی راستے کے نشاں تھے، آگے کے نشان سب
بارشوں میں بہہ چکے تھے، نہ راہ تھی نہ راہ کے نشاں بس سمت کا اندازہ تھا وہ بھی میرے رہبر کو مجھے نہیں—–
جنگل میں راہ تلاش کرنے میں بکریوں کی مینگنیاں بہت “کارآمد” ہوتی ہیں مگر اب کے بار میں کالاش دیس کا ایک
انوکھا رنگ دیکھ رہا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں کی بارشوں نے بہوک کے جنگلوں کی ڈھلوانوں کو جھاڑو پونچھا کر کے
چمکا دیا تھا اور ساری مینگنیں بہوک ندی کی توسط سے پتہ نہیں کس ڈیم کی طرف سفر اختیار کرچکی تھیں اور ہم راہ
کھوٹا کر بیٹھے۔ بہوک کے جنگل میں ہم کھو چکے تھے۔
دیودار و صنوبر کے اداس جنگل میں شام اترنے کے ساتھ ساتھ میری پریشانی میں اضافہ ہونا ایک لازمی امر تھا۔ حسن
کے بقول”ہم چھت کے آس پاس ہی تو ہیں بس راستہ کھو گیا ہے۔” شام آئی ساتھ میں گہرے گھنے بادل لائی اور دیودار،
چیڑ اور صنوبر کے جنگل جو کہ سطح سمندر سے تقریباً نو ہزار فٹ کی بلندی پر تھے میں ٹھنڈ اتری رہی تھی بادل اور
دھند نے ہماری تاحدِ نگاہ کو تقریباً پندرہ بیس میٹر تک محدود کر دیا تھا۔ کیمپ اور سلیپنگ بیگ ہم ساتھ لائے نہیں تھے
کہ ابتدائی منصوبے کے مطابق ہمیں تو سات آٹھ گھنٹوں میں چرواہوں کی جلائی ہوئی آگ کے گرد ہونا تھا وہ بھی شام
سے پہلے—– کچے چاول اٹھا لائے تھے کہ چھت پر پکا کر پنیر اور بکری کا گوشت ڈال کر کھانے کا منصوبہ تھا —
— اب تھیلے میں صبح کی چار سوکھی روٹیاں اور بیس سے کم کھجوریں تھیں اور بوتل میں ایک گلاس پانی اور ہاں

کچھ سگریٹ تھے تو رات گزاری کے لئے یہ راشن بہت تھا۔ میری ہمت نے جواب الجواب تو کافی دیر پہلے ہی کر دیا
تھا اب باقاعدہ انکاری ہو گئی- اور اب ہمارا دستی برقی ‘نور’ دھند کو پانچ میٹر سے زیادہ چیر نہیں پا رہا تھا۔ اور یہ
‘قافلے’ کے بہ امر مجبوری قیام کا وقت تھا۔
بس پھر ایک بڑا مہان سا دیودار کا درخت ہماری چھت بنا، صنوبر ( جس کو مقامی زبان میں سارس کہا جاتا ہے اور اس
کو کالاش میں مقدس درخت مانا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتےہے کہ ان پر پریاں بسیرا کرتی ہیں) کے پتوں سے حسن
نے نرم گداز بستر بنایا اور کیا کاریگری سے بنایا کہ رات بھر کوئی شاخ زرا نہیں چبھی، دونوں نے مل کر درختوں کی
نسبتاً خشک شاخیں اکھٹی کیں اور حسن نے چیڑ کے درخت پر چڑھ کر گوند حاصل کی کہ آگ لگائی جا سکے—–
نئی راشن بندی میں ہمارے حصے ایک ایک لکڑ قسم کی سوکھی روٹی، پانچ پانچ کھجوریں بمعہ کیڑوں کے اور دو دو
گھونٹ پانی آیا اور پھر بہوک کے جنگل کی طویل رات نے ہمارے شگوفے سنے جس میں لوچ کم اور لفڑا زیادہ تھا،
ہنسی کم اور سسکیاں زیادہ تھیں کی وہ زیادہ تر خفی شگوفے تھے—– مگر منٹو زدہ لطیفے بھی ٹھند کم نہ کر سکے
اور ہم کو اپنے اپنے جسم کی حدت بچانے کے لئے بغلیر ہو کر سونا پڑا (“افسوس ان غنچوں پہ” کہ جو اپنی ہی جنس
سے لپٹ کر سو گئے)۔ ہمارا سارس یعنی صنوبر کے پتوں کے اوپر مگر گھنیرے دیودار درخت تلے یہ ہنی مون
عارضی ثابت ہوا کہ صبح کے چار بجے بادل ہمت چھوڑ گئے اور برس پڑے۔ صبح نو بجے تک مطلع صاف ہونے کا
انتظار کیا کہ چھت کی یاترا مکمل کی جائے پر ازنِ باریابی نہیں ملا اور حسن کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے بارش
بڑھتی جائے گی واپسی میں بہوک ندی ویسے ویسے وحشی ہوتی جائے گی تو واپس چلتے ہیں۔
اب واپسی کیسے کی وہ ایک الگ داستان ہے اور بہوک ندی ایک ڈائن!
نو بج چکے تھے مگر بادل تھے کہ سورج کو قابو کئے ہوئے تھے، دھند تھی کے ہم کو ملفوف کئے ہوئی تھی، منظر
تھا کہ پسِ منظر میں تھا، پیش منظر اگر کچھ تھا تو دھند کا راج اور اسی پیش منظر کے بیچ کہیں ہم زیر و زبر ہوئے جا
رہے تھے۔ بادل تو دمِ سحری سے اپنے سحر میں لے کر ہمیں جگا چکے تھے اور ابھی بھی مسلسل برس رہے تھے
اگرچہ وہ تیزی نہ تھی بارش میں کہ ہم بس کمین گاہ میں ہی چھپے رہتے۔ میرا دل تو بہوک چھت میں اٹکا ہوا تھا جو
ہمارے تھوڑا ہی اوپر تھی، مگر راہ سجھائی دے تو۔ میرے راہبر کا دھیان رہ رہ کر بہوک ندی کی خونخواری کی طرف
جا رہا تھا اور نظریں اس کی میرے چہرے پر پڑ پڑ کے استدعا کر رہی تھی کہ پھر آجانا اب نیچے چلتے ہیں۔

بس پھر دس کا عمل تھا اور غبار آلود دل اور ایک کسک کے ساتھ ناکامیابی کا ہاتھ تھامے نیچے کا سفر در پیش تھا جو
“اوپر” کے سفر سے اوکھا ثابت ہوا۔ بارشوں نے ڈھلانوں کو پھسلاہٹ میں خود کفیل کر رکھا تھا اور اور پاؤں جمنے کا
نام تک بھولتے جا رہے تھے۔ گر من کو کچھ بھانے والا تھا تو وہ قربت میں نظر آنے والا بہوک بن کا نظارہ کہ دیودار
و چیڑ اور شاہِ بلوط و صنوبر کے لامبے لامبے درخت کہ جیسے دھند میں مائل بہ مراقبہ ہوں اور ہمارے ہاتھوں سے
زرا اوپر بادل برس برس کے جیسے عطر پاشی کر رہے ہوں۔ ہم باقاعدہ طور پر بادلوں سے اوپر بھی تھے اور بادلوں
کے بیچ بھی تھے۔ صنوبر و دیودار کے غسل لئے ہوئے جنگل کے بیچوں بیچ سے نیچے اترتے رہے اور دھند و بادل
ہمہ وقتی ہمارے ہمراہ رہے اور جب دو اڑھائی گھنٹوں کے بعد ہم کچھ بلندیوں سے تواتر سے نیچے اترتے رہے اور
راہوالیک ندی پر پہنچے جو ایک تنگ گھاٹی میں تھی تو یہ کافی حد تک بپھر چکی تھی جس نے ہماری پیشانیوں کو
شکن آلود کردیا کہ ندی کے دونوں طرف بہت تنگ راہ تھی، پھسلن تھی اور پچھلے دو ہفتوں کی بارشوں نے ندی کے
دونوں طرف کی چٹانوں اور پہاڑوں کی سختی کو کچھ حد تک تک نرم کر دیا تھا اور گاہے بگاہے چھوٹے بڑے پتھر
اوپر پہاڑ سے لڑھکتے ہوئے نیچے ندی سے میل میلاپ بھی کرتے تھے اور حسن نے کا خیال تھا کہ اگر کوئی مٹی کا
تودہ ہمارے اوپر والی سمت سے ہم پر آتا ہے تو وہ تو خوفناک تھا ہی اور اگر ندی کے دوسری طرف سے مٹی کا تودہ
ندی میں گرتا ہے تو لامحالہ اس تودے کی وجہ سے ندی کا پانی ہماری طرف بھی اچھلے گا جو خطرناک ہو سکتا تھا
یہی وجہ ہے کہ حسن نے باقاعدہ طور پر سخت لہجہ اختیار کر کے مجھے بھاگنے کا کہا اور ہم اس ڈائن قسم کے
سیکشن سے دس پندرہ منٹ میں اس رفتار سے نکلے کہ اسے تقریباً بھاگنا ہی کہا جاسکتا ہے۔ جب آگے چل کر گھاٹی
تھوڑی کھل گئی تو ہم ندی سے ہٹ کر چلنا شروع ہوگئے مگر چلنے سے پہلے میں ایک بڑے سے پتھر پر ڈھیر ہوگیا
کہ اترائی اتر کر اور اس ڈائن قسم کے سیکشن سے نکل کر میں ذہنی و جسمانی طور تھک چکا تھا اور بارش میں ہی
اس پتھر پر کمر سیدھی کی کہ آگے کو بڑھا جاسکے کہ شام سے پہلے گروم نہیں تو کم از کم راہوالیک گاؤں پہنچا
جاسکے۔ واپسی ہمیشہ مشکل و تکیلف دہ ہی لگتی ہے اور کبھی مشکلات ہوتی بھی ہیں، سو ہمارے ساتھ بھی ہوا، ندی
کے کٹاؤ نے کچھ راستہ “کھا لیا” تھا اور ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ ہم چٹان کے اس سیکشن کی طرف
جاتے جہاں حسن نے ایک چشموں کا پانی آبادی کی طرف لے جانے والی چینل کو دیکھا تھا اور اس پر چلتے ہوئے بھی
ایک جگہ پہاڑ کی دیوار کے ساتھ نیچے کھائی تھی اور کھائی کے اوپر دونوں طرف کی واٹر چینل کو ملانے کے لیے
ایک درخت کا تنا اندر سے کھوکھلا کر کے رکھا گیا تھا اور ہم بھی اس سے ہی پار ہو لئے۔

تقریباً پانچ گھنٹوں کے تھکن آلود ٹریک کے بعد ہم حسن کے گرمائی گھر راہوالیک پہنچ گئے جہاں اس کی اماں جی نے
فوراً چائے کے بعد سامنے کھیتوں سے تازہ کدو توڑ کر لکڑی کی آگ پر ہانڈی دھر دی مگر میری کمر جیسے ہی
چارپائی سے لگی، نیند نے آ دبوچا —– ایک گھنٹہ کی نیند، گرم روٹی، لذیز سالن اور کڑک چائے اور اماں جی کے
خلوص نے اتنا تازہ دم کر دیا تھا کہ میں مزید نیچے گروم کا سفر کر سکتا تھا جہاں میرے بچے میرا انتظار کر رہے
تھے۔
اور میں اپنی ترنگ میں تھا کہ ہم ڈائن ندی کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں —– مگر واپسی کے سفر پر ابی ایک امتحان اور
مقصود تھا —– کل جہاں ندی کے اوپر دو تنے رکھ کر پل بنایا ہوا تھا آج وہ بہہ چکا تھا اور ندی کا بہاؤ بھی تیز تھا تو
مطلب ندی میں اتر کا پار کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا۔ فطرت جہاں دل موہ لینی والی ہے وہاں خوفناک بھی
بہت ہے اور پھر اکثر مشکلات میں مہربان بھی ہو جاتی ہے تو ہم اور کچھ اور مقامی (کہ اب چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے
قرب میں تھے، جنگل میں نہیں) پچھلے دس پندرہ منٹوں سے ندی کنارے بہہ جانے والے تنوں کی جگہ پریشان کھڑے
تھے کہ اب کیا کیا جائے —– اتنے میں دو کالاشہ اور حسن کو میں ندی کے ساتھ ساتھ اوپر کی طرف بھاگتے دیکھا —
— سمجھ کچھ نہ آئی کہ کیوں بھاگے —– میں بھی پیچھے ہو لیا تو دیکھا کہ وہ ندی میں اوپر سے بہہ کر آنے والے
ایک تنے کو (جو جنگل میں کاٹا گیا تھا مگر سیلاب اسے نیچے لے آیا) پکڑنے کی تگ و دو میں تھے اور کچھ دیر میں
اس کو قابو کر لیا اور اگلے پانچ سات منٹ کی جنگ میں انہوں نے اس کو ندی مے بیچ میں ندی کے ایک کنارے سے
دوسرے کنارے تک پتھر لگا کر پھنسا لیا —– ہنگامی پل تیار تھا جس کے اوپر سے ندی کا پانی گزر رہا تھا اور ہمیں
بھی گزرنا تھا —– اور میں اپنے ڈر کی وجہ سے اسے پار کرنے کو کسی طرح بھی راضی نہ تھا —– اتنے میں
گروم گاؤں کی طرف سے دو مضبوط قسم کے شیخان (1896ء میں جب افغانستان میں کافرستان پر امیر عبدالرحمان نے
قبضہ کر لیا تو کچھ کاتی یا سرخ کافروں نے رمبور کے کُنیشٹ گاؤں میں پناہ لی مگر آہستہ آہستہ سارے کاتی اسلام
قبول کر گئے اور ان کو شیخان کہا گہا جبکہ ان کے گاؤں کنیشٹ کواب شیخاندہ کہا جاتا ہے) آئے اور تقریباً مجھے
زبردستی بہوک ندی ایسے پار کروائی کی اُس ہلتے تنے پر ایک شیخ میرا ہاتھ تھامے میرے آگے اور دوسرا شیخ میرا
دوسرا ہاتھ تھامے میرے پیچھے تھا اور کہہ رہا تھا، “فکر نہیں کرو مجھے تیرنا آتا ہے” پر فکر تو تھی کہ مجھے تیرنا
نہیں آتا۔

فوٹوگرافی نوٹ: تمام تصاویر لکھاری نے بنائی ہیں سوائے ان کہ جس میں لکھاری خود موجود ہے اور وہ چند تصاویر
حسن نے بنائی ہیں مزید برآں ڈی ایس ایل آر کیمرہ کی بیٹری واپسی پر جواب دے گئی تھی تو واپسی کی کچھ تصاویر
موبائل سے اتاری گئی اور سن 2015 سے لے کر اب تک موبائل ٹیکنالوجی نےکافی ترقی کر لی ہے، جیسی تصاویر
ہیں بہت بہتر ہیں کہ یادیں تو ہیں۔

Add a Comment

Your email address will not be published.