وادی سماہنی کا ایک گمشدہ باب: شیو کا مہادیو مندر اور اس کے بوسیدہ ہوتے ہوئے اثرات

ڈاکٹر محمد کاشف علی

آزاد جموں اور کشمیر کے دس اضلاع میں سے ایک ضلع بھمبرہے جو پنجاب کے میدانوں سے متصل ہے یا یوں کہہ
لیں کہ بھمبر، کشمیر کی وادی کو کھلنے والا وہ دروازہ ہے جو آپ کے لئے ان گنت خوشیاں کشمیر کی وادیوں اور
زیلی وادیوں میں کشید کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ضلع بھمبر یوں تو سارا خوبصورت ہے مگر اس کی خوبصورتی
سماہنی وادی میں قابلِ دید ہے۔ بھمبر شہری علاقہ ہے ہاں مگر جب جنوب سے آپ بھمبر میں داخل ہو کر اسے پیچھے
چھوڑ کر سماہنی کی طرف بڑھنا شروع کرتے ہیں تو چیڑ کے درختوں سے دھرتی مُزین ہونا شروع ہوتی ہے اور
ان کی مہک بھی قوتِ شامہ محسوس کئے بغیر نہیں رہتی اور ہاں اب یہ پہاڑی پکھیروؤں کی سلطنت کا آغاز ہے، اگر
آپ سماہنی کی صبح کے ناظر ہیں تو چہکاریں آپ ہی کے لئے ہیں۔ سماہنی گھاٹی کوئی ساٹھ کلومیٹر طویل اور آٹھ
کلومیٹر چوڑی ہے جس کے مشرق میں آپ کے متوازی لائن آف کنٹرول منظر میں رہتی ہے اور کبھی کبھار تو آپ
اس کی بہت زیادہ قربت میں ہوتے ہیں۔
پنجاب کے محبانِ کہسار کے لئے سماہنی ایک نعمتِ متبرکہ سے کم نہیں کہ پنجاب سے یہ سب سے قریب ترین چیڑ
کے جنگلات کے مناظر پیش کرتی ہے۔ گوجرانوالہ سے سماہنی کا فاصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کلومیٹر جبکہ گجرات سے فقط۔۔۔۔
کلومیٹر ہے، دوسری خاص بات اس وادی کہ یہ ہے کہ ابھی تک یہ سیاحتی مقام کے طور پر بہت زیادہ معروف نہیں
ہے تو بےھنگم سیاحوں کے ہجوم سے بھی ابھی مبرا ہے۔ وادی سماہنی کئی ذیلی وادیوں کا مجموعہ اور آج ہم بات
کرتے ہیں کڈیالہ کی، جہاں آپ ٹریک کر سکتے ہیں، ندی میں نہا سکتے ہیں اور تاریخ کے جھروکوں میں جھانک
سکتے ہیں اور اپنے آنے والے کل کے لئے آج خوشیاں کشید کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔یادوں کی شکل میں۔
وہاں دور سماہنی گھاٹی کی ذیلی وادی کڈیالہ کے قریہ بیہڑا سے ایک بل کھاتی راہگزر آپ کو ندی کنارے ایک قدیم
مندر تک لے جائے گی اور داستان صدیوں کی سنائے گی۔۔۔۔۔تو سنتے ہیں۔
قریہ بیہڑا ٹریک کا نکتہ آغاز جبکہ جنڈالہ کے مقام پر مہادیو مندر نکتہ اختتام ہے جہاں درختوں کے جھنڈ میں مندر
خود کو پوشیدہ کئے ہوئے ماتم کناں ہے۔۔۔۔ یاد رہے کہ جنڈالہ، مقام کا نام ہے یہاں کوئی قریہ آباد نہیں اور دوسرا یہ
بھی بتانا مناسب ہے کہ اس جنڈالہ کو سماہنی کی ذیلی گھاٹی پونا والے جنڈالہ سے الگ سمجھا جائے۔ بیہڑا تک تو
کوئی بھی سواری آپ کے لے آئے گی، یہاں سے آگے مندر تک آپ ہی ہمت دیکھانی ہے۔۔۔۔۔ سفر اتنا مشکل بھی نہیں،
فقط تین ساڑھے تین کلومیٹر کا سفر ہے اور اگر خراماں روی سے چلتے رہتے ہیں، راہ میں پڑنے والے کھیتوں
کھلیانوں کا مشاہدہ کرتے بڑھتے جاتے ہیں تو ایک گھنٹے سے کم وقت میں وادی کے پیندے میں مندر کے سامنے ہوں
گے۔ آغاز میں تو آپ کچے و پتھریلے ٹریک پر چلتے ہیں جس پر جیپ و ٹریکٹر ٹرالی سے بھی سامنا ہو سکتا ہے،
بس یہ پندرہ بیس منٹ کی چاندنی ہے اس کے بعد آپ اس ٹریک کو چھوڑ کر ٹریک سے بائیں طرف (مغرب کو) اتر
جاتے ہیں۔۔۔۔۔ اور پھر اترتے ہی جاتے ہیں، راہ میں چند ایک انسانی آشیانے آتے ہیں۔۔۔۔۔آپ اترتے جاتے ہیں۔۔۔۔۔درختوں
کے چھدرے ذخیرے آتے ہیں۔۔۔۔آپ اترتے جاتے ہیں۔۔۔۔کھیت کھلیان آتے ہیں مگر آپ ہیں کے اترتے ہی جاتے ہیں کہ
نکتہ آغاز سے نکتہ اختتام تک اترائیاں ہی اترئیاں ہیں جو آپ کے ٹخنوں اور گُھٹنوں کا بنا کسی امتحانی شیدول کے
امتحان لیتی ہیں اور جم کے لیتی ہیں۔۔۔۔وہ جو کہتے ہیں پہاڑ چڑھنا مشکل ہے وہ یہاں کہتے نظر آئیں گے کہ اترنا
کونسا آسان ہے۔ مندر چونکہ معروف نہیں، نہ ہی سیاحوں کا مرکز ہے تو وہاں تک رسائی کے لئے آپ راستے کی
بھول بھلیوں کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اصل میں اس مندر کی (سیاحوں کے لئے) دریافت کا سہرا سماہنی بازار کے قرب
میں قریہ سمرالہ کے باسی اشفاق مغلے کے سر ہیں جو ایک پارہ صفت روح ہیں اور کچھ نہ کچھ نیا سماہنی کی وادی
کا سیاحوں کی دلچسپی کے لئے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ مندر تک پہنچنے کے لئے بہتر ہے کہ کسی مقامی کو ساتھ
لے کر جائیں کہ راستوں کی بھول بھلیوں سے جو وقت بچے گا وہ آپ نیچے ندی سے ہمکلام ہو سکتے ہیں، قریبی
مقدس تالاب میں نہا سکتے ہیں، مندر کی عکاسی کر سکتے ہیں اور ہاں وہاں جنگل میں منگل کا سماں بنا کر خود
کھانا بنا کر تناول کرسکتے ہیں۔۔۔۔یاد رہے وہاں زادِ راہ آپ لے کر جائیں گے، وہاں آپ کو فقط فطرت و تاریخ ملے
گی، اپنا لنگر خود ہے لے کر جانا ہے۔
یہ مندر بہت قدیم تو نہیں لگتا، پھر بھی آثار سے اس کی قدامت دو اڑھائی سو برس پیچھے تک کی معلوم ہوتی ہے
اب یہاں سے مندر کا لکھنا ہے
برعظیم پاک و ہند کی تقسیم 1947 سے پہلے مقامی لوگوں کے مطابق مندر اور اس کے ارد گرد کا علاقہ کا کافی آباد

تھا اور لوگ دور دور سے جموں سے اور کشمیر کے مختلف علاقوں سے یہاں مندر کی زیارت اور اپنی پوجا پاٹ
کے لئے قربانی کے لئے اور یہاں اشنان کرنے کے لئے آیا کرتے تھے لیکن اگر دیکھیں تو مندر بالکل ویران ہے اور
اس کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ بوسیدگی کا شکار ہو چکا ہے بلکہ مندر کے اندرونی حصے میں
چمگادڑوں نے مکمل طور پر پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
یہ مندر درختوں کے ظہیر کے درمیان موجود ہے جبکہ اس کے ایک طرف شمالی طرف ندی بہتی ہے اور مندر کے
شمال مشرق میں ایک قدرتی تالاب بنا ہوا ہے یقینا اس میں جو یاتری ہے وہ اپنی پاکیزگی کے لیے نہ آیا کرتے تھے
آشنا کیا کرتے تھے
اس مندر کا نام جیسے کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مہادت مندر ہے یہاں میں بتاتا چلوں کہ مہادیو اصل میں شریف کا
ہی ایک اور نام ہے جیسے کہ تمہارے سراج نارا یا بولنا اور ذرا بھی شرک کے مختلف نام ہے اسی طرح دیر کا ہی
ایک نام ہے اس کا مطلب ہوا کہ یہ مندر اصل میں شیومت کے ماننے والوں کا مندر ہے ہے۔
بیڑا گاؤں سے جہاں سے ٹریک کا آغاز ہوتا ہے وہاں سے لے کر جنڈالا جہاں مندر موجود ہے بہت زیادہ طویل نہیں
ہے تقریبا پچاس ساٹھ منٹ کی مسافت کے بعد مندر تک آپ پہنچ سکتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اندر مکمل طور پر
ہے پر پر بہت زیادہ پریشر آتا ہے ہاں واپسی پر یہ ہے کہ سارا راستہ چڑھائی پر مشتمل ہے اور اگر آپ کو لگتا ہے
تو پھر آپ کو واپسی پر آسانی ہو گی لیکن اگر آپ کو اترائی اترنا پسند ہے یا اس میں آپ آسانی محسوس کرتے ہیں تو
مندر تک جانے آپ کو آسانی لگے گی۔
موجودہ وقت میں اگر اس مندر کا وزٹ کیا جائے تو یہ بہت ہی مخدوش حالت میں ہے یہ ڈبل سٹوری ہے اور اوپر
جانے کے لیے دو تنگ سے زینے ہیں دو طرف سے زینے پر جاتے ہیں یہاں سے جنڈ آلہ کے مقام کا بیان یکے وادی
کا بہت اچھا نظارہ آپ کو نظر آتا ہے جو سمندر کے ساتھ بہترین دی ہے اس کی نظر موسیقی کی آواز ہے اور بڑا
سارا جو ایک درخت ہے آپ کا اس کے پیچھے اچھے مقدس تالاب بھی نظر آتا ہے۔

مندر کا رخ مشرق کو

Add a Comment

Your email address will not be published.