راولاکوٹ کے دو سیاحتی نگینے: جھیل بنجوسہ اور تولی پیر

تحریر و تصاویر: محمد کاشف علی

پاکستان میں سیاح تو کم پڑ سکتے ہیں مگر سیاحتی مقامات نہیں۔۔۔۔ ارضِ پاکستان ایک غنائیہ ہے ایک ساز ہے جو
سیاحوں کے لئے ہر موسم میں ایک مختلف سُر بکھیرتا رہتا ہے کہ کوئی تو آئے سریلے سُروں کی بندش میں۔۔۔۔مکران
کے ساحلوں سے لے کر ہمالہ کے پہاڑوں تک ہرقطعہ ایک پوری داستان ہے، حسن کی تجسیم ہے۔۔۔۔مگر ارضِ کشمیر
کا حسن لازوال ، جا ن گداز ہے۔۔۔۔یوگی بابا کہہ رہے تھے کہ اس خطہ کا قدرتی اور لازوال حسن جیسے ہزاروں
لاکھوں برسوں سے مراقبہ میں ہےکہ کوئی تو آئے اس حسن کی دیوانگی کی زد میں ۔۔۔۔ لکھنے کو تو بہت کچھ ہے
مگر آج تولی پیر اور بنجوسہ جھیل کی باتیں ہی کافی ہیں۔

راولا کوٹ آزاد کشمیر کے پونچھ ضلع کا صدر مقام تو ہے ہی ساتھ ہی ایک حسن کی دیوی کی چادر ہے جس نے
راولاکوٹ کے اپنے حصار میں لے رکھا ہے، راولاکوٹ جو کہ سطح سمندرسے تقریباً 5300 فٹ کی بلندی پر ہے تو
سمجھ میں آہی جاتا ہےکہ سر سبز دیوی نے لامحالہ چیڑ اور دوسرے رُکھوں کو اپنی رِدا بنا کے کیسے راوالاکوٹ
کے دوش پر پھیلا رکھا ہوگا ہے۔ راوالاکوٹ میں سر سبز زمرد آمیز دیوی سے لبِ جنگل ملاقات کے مقامات تو
اوربھی ہیں مگر بنجوسہ اور تولی پیر زبان زدِعام ہیں۔
بنجوسہ جھیل
پاکستان کے وفاقی دارالخلافہ اسلام آباد سے راولاکوٹ تقریباً 130کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ کوہ نورد یا جنگل نورد
کہوٹہ روڈ کے سنگی سینے پر مونگ دلتے ہوئے تین سے چار گھنٹوں میں راولاکوٹ کے ہمالیائی کوہستانی شہر پہنچ
جاتے ہیں، اب آپ پیر پنجال میں ہیں اور اگر آپ بنجوسہ جھیل جا رہے ہیں تو راولاکوٹ سے کھائی گلہ تک کوئی
بیس کلومیٹر تک مزید کسی گاڑی، جیپ کا قیدی رہنا پڑے گا آپ کو اور پھر کھائی گلہ سے بنجوسہ جھیل۔

بنجوسہ جھیل کیا ہے قدرت و انسان کی ایک مشترکہ کاوش ہے۔ قدرت نے بنجوسہ کے مقام پر (جسے مقامی چھوٹا
گلہ بھی کہتے ہیں) زمین پر براؤن میخیں گاڑھی پھر بہت نفاست سے ان میخوں پر سبز قالین بچھایا اور تراوت کے
لئے ’’کُن‘‘ اور ’’فیکون‘‘ کا ترانہِ ربوّی سنایا۔۔۔۔ اور پھر حضرتِ انسان نے بنجوسہ کے پہاڑوں سے گنگناتے چشموں
کے آگے بند باندھ کر ’’زم زم‘‘ کا آلاپ دیا تو جھیل بنجوسہ نے وجود پایا۔۔۔۔بنجوسہ جھیل کی پائن کے درختوں نے
اپنی سر سبز گود میں پناہ دے رکھی ہے اور ان ہی درختوں پر کوہستانی پکھیروؤں کی آماجگاہیں بھی ہیں جو صبح
سویرے نہائت سریلے سُر چھیڑ کر آپ کو صبح بخیر کا پیام دیتے ہیں اور آپ جھیل کی اطراف میں اپنے ہوٹل یا
سرکاری ریسٹ ہاؤس سے جماہی لیتے قدرت کی عطا کردہ انتہائی سندر صبح میں سانس لیتے ہیں۔۔۔۔اور جھیل کنارے
اپنے عکس کو چھوٹے سنگریزوں سے دائروں میں تبدیل کرتے ہیں۔ کسی درخت کی اوڑھ میں خود کھانا پکاتے ہیں یا
جھیل میں کشتی رانی کرتے ہیں۔ کچھ گرم دوپہرمیں بھی اگر آپ جھیل کنارے نشت جماتیں ہیں تو سبز پائن کے جنگل
سے ہو کر جو ہوائیں آتی ہیں وہ آپ کی پلکیں بوجھل کر دے گیں۔ جھیل کنارے اترتی شام کا زرد سورج آپ کو الوادع
کہتا ہے اور اپنا سارا روپ رنگ جھیل کی سطح پر پھیلا کر اس کوسیال سونے کے جیسا بنا دیتا ہے۔۔۔۔اُسی وقت

کوہستانی پکھیرو اپنے گھروں کو سدھارتے ہیں۔۔۔۔جھیل کنارے کی سرد ہوائیں آپ کو اندر اپنی آمجگاہ جانے کا پیغام
دیتی ہیں یا کم از کم اتنا تو کہتی ہیں ’’خود کو گرم چادر میں لپیٹ لو‘‘۔ جھیل بنجوسہ کے نواح میں جنگل نوردی ایک
اچھا مشغلہ ہے اور اگر جنڈالی گاؤں تک ہوں آئے تو کیا جاتا ہے!!! کچھ یادیں اور جمع ہو جائیں گی۔

تولی پیر
راولاکوٹ جانا اور تولی پیر نہ جانا، ایک کوہ نورد کو ایسی بے رخی جچتی نہیں۔۔۔۔ تو جناب آپ ایسا کوئی طعنہ نہ
سنیں اور ایک نئی صبح میں، ایک من چلے کوہ نورد کیطرح آرام سے بنجوسہ (چھوٹا گلہ) سے کھائی گلہ اور اور
وہاں ساے تولی پیر کو روانہ ہوں جو کہ سطح سمندر سے تقریباً 8850 فٹ بلندی پر ہے۔۔۔۔ کالا قالین (کارپیٹڈ روڈ) جو
کہ کچھ جگہوں سے ادھڑا بھی ہوا ہے، آپ کو کھائی گلہ سے تقریباً 20 کلومیٹر دور تولی پیر تک پہنچانے کے لئے
خود کو آپ کی سواری کے نیچے دان کر دیتا ہے۔۔۔۔کھائی گلہ سے جب کوہ نورد تولی پیر کا سفر شروع کرتا ہے تو
اسے ذرا مختلف قسم کی لینڈ اسکیپ دیکھنے کو ملتی ہے۔۔۔۔ایک توُ خود کو پائن کے جنگل میں گھرا دیکھتا ہے اور
جب آپ کھائیوں اترائیوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں آپ کو پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر روائتی کشمیری گھر ایستادہ
نظر آتے ہیں۔ اگرچہ روائتی گھر اب بہت کم کم منظر کا حصہ بنتے ہیں کہ 2005 کے آفت انگیز زلزلہ نے اکثر
گھروں کو زمین بوس کر دیا تھا اور اب ٹین کی چھتوں والے زیادہ گھرہی منظر کا حصہ ہیں۔ انہی گھروں سے جب
صبح صبح دھواں نکلتا نظر آتا ہے تومحسوس ہوتا ہے کہ زندگی سانس لے رہی ہے۔ تولی پیر، جو کہ شہری ماحول
سے زرا ہٹ کے ہے، کے راستے میں کوہ نورد کو کشمیری خواتین اپنے سروں پر پانی کے برتن رکھے نظر آتی
ہیں جو دور کہیں ندی نالے سے زندگی کی تار جوڑے رکھنے کے لئے آبِ حیات لاتی ہیں، سکول جاتے بچے اور
چراگاہ کو جاتے ریوڑ بھی تو راہ میں ملتے ہیں اور اوپر آپ کے ساتھ سفر کرتے بادل اور پرندے۔
کھائی گلہ سےایک گھنٹہ سے کم کی بھی مسافت طے کر کے آپ ایک کھلے ڈھلے کوہستانی چراگاہ تولی پیر پہنچے
ہیں تو منظرنامہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ تولی پیر کی تیز ہواہیں خوش آمدید کہتی ہیں اور آپ اپنے چاروں طرف
ایستادہ پہاڑوں کو تقریباً اپنے برابر پاتے ہیں۔۔۔۔جو کوہ نورد اس چراگاہ سے قبل پایہ (شوگران) یا لالہ زار کی
چراگاہیں دیکھ چکے ہیں اُن کو تولی پیر کے پہاڑ، ہواہیں، سبزہ گاہیں، اورگل بوٹے مانوس مانوس سے لگے گیں۔
تولی پیرمرغزار پر اگر جوتے اتار دئے جائیں تو نیچے بچھا سبز قالین بہت نرمی سے پاؤں پر بوسے دے گا اور نرم
وتروتازہ گھاس کی تراوت آنکھوں میں سرائیت کرجاے گی۔

اگر تو آپ نے سیاحتی موسم ( جون تا اگست، ستمبر) میں تولی پیر یاترا کا پلان بنایا ہے تو آپ تھکن کے بعد کسی بھی
عارضی ڈھابے سے چائے، پانی، کھانا وغیرہ سے شکم پری کر سکتے ہیں مگر یوگی بابا تو کہہ گئے ہیں کہ ایک
اچھی نسل کا آوارہ گرد اپنی کوہستانی منزل پر پہنچ کر مراقبہِ فطرت میں کھو جاتا ہے اور شکم پُری تو کیا اکثر سانس
لینا بھی گوارہ نہیں کرتا—– تو جناب تولی پیر کا زمرد حسن آپ کو محسور، مسحور اور محبوط کر دیتا ہے۔۔۔۔اور آپ
کو دعوت دیتا ہے، ’’اے کوہ نورد! تو نے مجھے سبز لبادے میں تو دیکھ لیا، کبھی آ اور مجھے سمیں بدن بھی تو

دیکھ، آ اور دیکھ میں کیسے سرما میں سبز چادر کو سفید چادر سے بدل لیتا ہوں اور برف کی دبیز چادر اوڑھ کر سو
جاتا ہوں۔
نوٹ: چونکہ یہ والی تصاویر سرما میں لی گئی تھی تو جھیل کا سندور زرا مدھم ہے اور تولی پیر نے سپید چادر کو
اوڑھ رکھا ہے۔

Add a Comment

Your email address will not be published.