جوگیاں دا ٹلہ: تاریخ کا اک مخدوش جھروکہ
جوگیاں دا ٹلہ: تاریخ کا اک مخدوش جھروکہ
طبعیاتی اصولوں کے بموجب وقت کی لہریں ہمہ وقت متحرک رہتی ہیں، سمت کوئی بھی ہو۔ پر گواہ ہے ہر وہ یاتری
ٹلہ جوگیاں کا کہ تاریخ میں ٹلہ منجمد سا ہو کر رہ گیا ہے، جیسے ٹلے کے لئے وقت رک سا گیا ہو، جیسے تاریخ ٹلہ
پہنچ کر ہچکیاں لے رہی ہو، جیسے اک اور سویا ہوا محل جیسا کوئی ماحول کوہستانِ نمک کی زمین سے تجسیم ہو رہا
ہو۔ اب ٹلہ تاریخ کا ماتم کدہ اور ہمارے رویوں کا نوحہ ہے اور کچھ نہیں۔ داغستان کا رسول حمزہ توف اپنی کتاب،
“میرا داغستان” میں ایک لوک شاعر ابو طالب کی بزبان تحریر کرتا ہے کہ اگر ہم اپنے ماضی کو گولی سے مارے
گے تو ہمارا ماضی ہم پر توپ داغے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب میری دھرتی کا ماضی ہمیں چاند ماری کا نشانہ
بنانے کے لئے کونسا ہتھیار استعمال کرے گا (ویسے یاد رہے ٹلہ وہی مقام ہے جہاں سے آزمائشی طور پر 1998 میں
غوری میزائل داغا گیا تھا)۔
چشمِ تصورکو جو وا کیا جائے تو جوگیوں کا ایک کنبہ ملے گا ٹلہ پر تپسیا کرتے، یوگ کرتے اور اپنے اپنے جاپ
کرتے ہوئے۔ وقت کی لہریں آتی جاتی رہی اور جوگیوں کی روحیں جسموں کی قید سے آزاد ہوتی رہی پر ٹلہ پھر بھی
آباد رہا کہ ٹلہ ہندوستان بھر کے جوگیاں کا مرکزِ حیات تھا۔ اور پھر سن سنتالیس کا بٹوارہ ہوا تو ایک ریاست ہندو ہو
گئی دوسری مسلمان اور جوگی کیا کرتے؟ وہ ہندو بھی تھے، مسلمان بھی اور سکھ بھی یا شائد سب کچھ تھے یا شائد
کچھ بھی نہیں۔ تو بس وقت وہیں رک سا گیا اور ٹلہ پھر آباد نہ ہو پایا۔
میرے گرو اور پاکستان میں تحقیقی و تاریخی سیاحت کو رواج دینے والے سلمان رشید ٹلہ کی تاریخ کو اختصار کی
گرہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلے پہل یہ کوہستانی مقدس معبد پہلی صدی قبل مسیح میں گرو گورکھ ناتھ نے آباد کیا
تھا جس کو کن پھٹے جوگیوں کے فرقے کا بانی خیال کیا جاتا ہے، مغل بادشاہ اکبر نے سولہویں صدی عیسوی میں دو
بار اس مقدس پہاڑ کا رخ کیا اور اس کے لئے جاگیر بھی وقف کی، اٹھارویں صدی نے احمد شاہ ابدالی کو جوگیوں اس
تعلیم و کمیں گاہ کو تباہ کرتے دیکھا مگر ابدالی کے جاتے ہی جوگی لوٹ آئے۔
الیگزینڈر کنینگھم (1893-1814) برطانوی راج میں ایک آرمی آفیسر تو تھا ہی پر دل اسکا تاریخ کھوجنے میں لگا
رہتا تھا خاص کر اسے قدیم تاریخ اور آثارِ قدیمہ سے لگاؤ تھا اور وہ انڈین آرکیالوجیکل سروے کا پہلا ڈائریکٹر بھی
تھا۔ اسکا یہ خیال ہے کہ یہ مقدس پہاڑی سب سے پہلے سورج دیوتا بالناتھ سے منسوب کی گئی تھی تب سے اسے ٹلہ
بالناتھ بھی کہا جاتا ہے۔ الیگزینڈر کنینگھم کا ہی خیال ہے کہ گرو گورکھ ناتھ پندرہویں صدی عیسوی میں ہو گزرا ہے
اور اسی خیال کو برطانوی دور کے افسران و ماہرین ڈینزل چارلس ابٹسن (1847-1908) اور ایڈورد ڈوگلس میکلیگن
(1864-1952) وغیرہ نے بھی قبول کیا ہے مگر سلمان رشید قدیم تاریخ اور لوک روایات کی بنیاد پر استدلال کرتے ہیں
کہ گرو گورکھ ناتھ کا اور ٹلہ کا ذکر اُجین کے راجہ بھرتری اور سیالکوٹ کے راجہ سلواہن کے ادوار اور انکے
حوالوں سے ملتا ہے اور دونوں کا زمانہ پہلی صدی قبل مسیح کا ہے۔ راجہ بھرتری تو خود راج پاٹ تج کر اور اپنے
بھائی وکرم جیت کو تاج و تخت سونپ کر واردِ ٹلہ ہوا جبکہ کے راجہ سلواہن کا بیٹا پورن گرو گورکھ ناتھ کا بھگت بنا
تھا، آج بھی سیالکوٹ کی ثقافتی کہانی تب تک مکمل نہیں ہوتی جب کہ تک پورن بھگت کا قصہ سماعتوں کی گلیوں سے
ہو کر نہ گزرے۔ لوک روایات کے بیانیے میں مبالغہ تو ہوسکتا ہے مگر قدیم ہند کی تاریخ نگاری لوک روایات کے سے
ہی اتنی ضخیم ہوئی ہے۔ لوک روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مخصوص سماج کی مشترکہ یاداشت
ہوتی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے بھلے اس میں جزئیات کی آمیزیش ہوتی رہے۔
یہ مقدس پہاڑ ٹلہ گورکھ ناتھ سے ٹلہ بالناتھ بنا اور پھر عالم میں ٹلہ جوگیاں کا نام پایا، مغل بادشاہ اکبر کا وقائع نویس
ابوالفضل اسے ٹلہ بالناتھ کے نام سے ہی “آئینِ اکبری” میں جگہ دیتا ہے اور اسی کے مطابق اکبر نے 1581ء میں اس
جوگیوں کے اس مقدس پہاڑ کی یاترا کی۔ شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی کے وسط میں جرنیلی سڑک سے منسلک
دینہ میں قلعہ روہتاس جع بنوا رکھا تھا تو اس کے بعد جب مغل شاہان یہاں سے گزرا کرتے تو یقیناً قیام تو کرتے ہوں
گے اور کچھ ٹلہ کی زیارت بھی کرتے ہونگے، بہر کیف تاریخ میں نورالدین جہانگیر بادشاہ کا ذکر تو مل ہی جاتا ہے کہ
وہ ایک بار تو جوگیوں کے مقدس پہاڑ تک آیا۔
پنجاب کی لوک داستان ہیر رانجھا بھی ٹلے سے نکاحی ہوئی سی ہے کہ رانجھا جب محبت کے حصول میں ناکام ہوتا ہے
اور اسکا دل ناشید سسکیوں سے روتا ہے تو وہ دل کے سکون کے لئے راہِ فرار اختیار کرتا ہے اور ٹلہ کے معبد کدہ
میں آکر سنیاس لے لیتا ہے، خیر اسکا اصل سنیاس تو ہیر ہی تھا، ٹلے والا جوگ تو دل والا روگ مٹانے کے لئے تھا۔