جنجیریت کوہ: وراثت سے انکاری ایک کالاش وادی
جنجیریت کوہ: وراثت سے انکاری ایک کالاش وادی
تحریر وتصاویر: محمد کاشف علی
داغستان کا لوک شاعر ابو طالب (بحوالہ رسول حمزہ توف کی کتاب “یہ میرا داغستان”) کہتا ہے، ” جو قوم اپنے
ماضی کو گولی کا نشانہ بناتی ہے ان کا مسقبل ان کو توپ کا نشانہ بناتا ہے”
آج کالاش قبیلہ سلسلہ ہندوکش میں دور دراز بسے چترال کی تین وادیوں (بمبوریت، رمبور اور بریر) میں پاک افغان
سرحد (ڈیورنڈ لائن) کی قربت میں آباد ہے اور آبادی تعداد میں محدود ہے، مقامی نجی فلاحی تنظیم کے سربراہ
وزیرزادہ کالاش کے مطابق تینوں وادیوں میں کالاش قبیلے کے تقریباً چار ہزار افراد بستے ہیں جو قدیم تہذیب وتمدن
پر ابھی بھی کاربند ہیں۔ تاریخ اور روایات کی آمیزش سے یہ تسلیم شدہ ہے کہ کالاش موجودہ وادیوں میں کوئی دو
ہزار برسوں سے آباد ہیں۔ ان کا یونانی النسل ہونا لسانیات، آثارِ قدیمہ کی سائنس اور جینیات کا علم رد کر چکا ہے اور
یہ میرا موضوع بھی نہیں ہے کہ کالاش کی ابتداء کیا ہے۔ “تاریخ چترال”، “نئی تاریخِ چترال”، مقامی مورخین (
پروفیسر ڈاکٹر عنائیت اللہ فیضی، پروفیسر ڈاکٹر اسرار الدین، پروفیسر رحمت کریم بیگ وغیرہ) اور کالاشہ روایات
کے مطابق سارے چترال پر کالاش قبیلے کی حکمرانی تھی جو 14ویں صدی کے آغاز میں مسلم حکمرانی کے ساتھ
اپنے اختتام کو پہنچی کم از کم بالائی اور چترال خاص میں، جنوبی چترال میں کچھ عرصہ تک (بقول آگسٹو کاکوپارڈو
اور البرٹو کاکوپارڈو، اطالوی محققین) کالاشہ اپنی سیمٹتی حکمرانی برقرار رکھ سکے۔
جنجیریت کوہ وادی بھی انہی وادیوں میں سے ایک کالاش وادی ہے جہاں ان کے آباؤ اجداد نے برسوں حکمرانی کی،
جہاں وہ صدیوں آباد رہے اور اپنی تہذیب و ثقافت کے آثرات ثبت کئے۔ مگر آج وہاں کے باشندے اپنی ہی ثقافت سے
گریزاں ہیں۔ مذہبی طور پر کل وہ کالاش تھے آج مسلمان ہیں، ثقافتی طور پر وہ اپنے ماضی سے ناطہ توڑ کر گزشتہ
تین نسلوں سے کھوار مسلم ثقافت میں ڈھل رہے ہیں اور پسند نہیں کرتے کہ ان کے کالاش دور کو کریدا جائے۔
چترال خاص کے جنوب میں کوئی چالیس کلومیٹر کی مسافت پے دورش کا چھو ٹا سا پرسکون کوہستانی قصبہ ہے جو
جنوبی چترال کی سیاحت کرنے کے لئے سیاحوں کا ممکنہ سیاحتی ہیڈ کوارٹر بنتا ہے جہاں بازار، بینک، ہوٹل کی
مناسب سہولیات کے ساتھ ساتھ اطراف میں جانے والی ٹرانسپورٹ بھی مل جاتی ہے۔ دروش کے بارہ/پندرہ کلومیٹر
جنوب مغرب میں، ڈیورنڈ لائن کی قربت میں جنجیریت کوہ وادی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ بہت کم ہے اور دن کے
مخصوص اوقات میں وہاں گاڑی جاتی۔ ایک راستہ دروش بازار سے جنجیرت سے ہوتا ہوا جنجیریت کوہ جاتا اور
دوسرا نسبتاً طویل ہے جو دروش بازار سے سویر وادی سے جنجیریت سے ہو کر جنجیریت کوہ جاتا۔ دروش سے
جنجیریت تقریباً چھ اور جنجیریت سے جنجیریت کوہ تقریباً آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ جنجیریت تک تو دروش سے سارا
دن گاڑیاں سہہ پہر تک چلتی ہیں لیکن جنجیریت کوہ صرف ایک ادھ ہی گاڑی جاتی یا پھر سالم کروا لی جائے یا پھر
جنجیریت تک لوکل میں سفر کر کے آگے آٹھ کلومیٹر کا ٹریک کیا جائے۔
جنجیریت کوہ کو جاتا راستہ دوسری کالاش وادیوں سے کوئی مختلف نہیں، وہی ہندو کش کے بھورے/سرمئی سنگلاخ
بلند و بالا پہاڑ، ایک طرف گہرائی میں بہتی غُراتی ندی، نیچے کوہستانی راستہ اور اس کے اوپر سے جھکی ہوئی
چٹانیں جو کبھی کبھی ڈراتی بھی ہیں کہ ابھی گری کہ ابھی گری۔ اگر تو اجکل میں بارش نہیں ہوئی تو آپ کو ندی کا
پانی صاف و شفاف ملے گا جسکو پیا بھی جا سکتا ہے۔ پیا تو خیر چشموں کا پانی بھی جا سکتا ہے جو جنجیرت سے
جنجیریت کوہ تک وافر مل جاتے ہیں اور ہاں اگر آپ پھلوں کے موسم میں پیدل مائل بہ سفر ہے تو یہ وادی آپ کو
اپنے میوہ جات (شہتوت، خوبانی، سیب، اخروٹ، بادام،انگور وغیرہ) سے نوازتی ہے۔
وادی میں تین بڑی قومیتیں آباد ہیں؛ گوجر، پٹھان اور شیخان۔ گوجر اور پٹھان نسبتاً نئے آباد کار ہیں جب کہ قدیمی
باشندے شیخان ہیں جو کبھی کالاش ہوا کرتے تھے۔ تواریخ کے مطابق بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی تک
سب کالاش مسلمان ہو گئے اور لفظ شیخان (واحد شیخ) سے ملقب ہوئے۔ میرے مقامی راہنما مظفر خان کے مطابق یہ
عمل تین نسل پہلے ہوا۔ ان کے دادا پیدائشی کالاش تھے جو مسلمان ہو گئے تھے۔ آج یہ صورتحال ہے کہ شیخان اپنا
ماضی نہ کریدنا چاہتے ہیں اورنہ پسند کرتے ہیں کہ کوئی ان کو کالاش کہے۔ ان سے ماضی کے کالاش دور پہ بات
کرنا ایک مشکل امر ہے۔ کالاش دور کی اکثر نشانیاں، اثرات، عبادت گاہیں مسمار ہو کر ناپید ہیں۔ ہاں آج بھی کالاش
دور کے چند ایک اثرات مل جاتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ وادی کے گروم گاؤں (نیا نام، شیخاندہ) میں کالاشہ قوم کے پانچ کوٹ (دفاعی مینار) ہوا کرتے تھے
جو تین منزلہ ہوا کرتے تھے اور جب افغانستان کی طرف سے لال کافر (آج کل ان کو نورستانی کہا جاتا ہے) حملہ
کرتے تو مقامی لوگ ان کوٹوں میں مورچہ بند ہو جایا کرتے اور اوپر سے آگ/جلتی لکڑیاں پھینک کر اپنا دفاع کرتے۔
جرمن محقق کارل ووٹ 1976 میں ان کوٹوں کی تعداد تین بتاتا ہے اور آج 2017 میں صرف دو باقی بچے ہیں۔ دو
میں سے ایک کوٹ میں کالاش دور کے گھریلو استعمال کی چند اشیئا محفوظ کی گئی جن میں برتن (دھات و لکڑی
کے)، مارخور کے سینگ، عصا وغیرہ ہیں۔ اس کا سہرا برطانوی فلاحی کار کن مورین پی لائینز کے سر جاتا ہے
جس نے یہ مجموعہ اکھٹا کر کے ایک کوٹ میں رکھوایا اور ایک چابی بردار رکھا جس کو وہ ماہانہ مشاہرہ دیا کرتی
تھی۔ مورین اس برس مارچ میں تقریباً اسی برس کی عمر میں وفات پاگئی اور اب چابی بردارکسی اور فلاحی نجی
تنظیم کے راہ تک رہا ہے کیونکہ مورین کا ارادہ یہاں ایک چھوٹا سا عجائب گھر قائم کرنے کا تھا۔
کالاش دور میں یہاں ایک بڑا قبرستان ہوا کرتا تھا جس میں زمین کے اوپر ہی تابوت رکھنے کی روائیت تھی (جیسے
ایک بڑا قبرستان آپ آج بھی بمبوریت کالاش وادی کے کراکال گاؤں میں دیکھ سکتے ہیں، ایسے ہی دو قبرستان بریر
وادی میں بھی ہیں) مگر آج چند ایک تابوت معدومیت کی گڑیاں گن رہے ہیں۔ شائد یہ روایئت پارسیوں سے مستعار لی
گئی ہو۔ عبادت گاہیں تو کافی عرصہ قبل ہی مسمار کر کے ان پر گھر بنا لئے گئے ہیں۔ ہاں گھروں کا طرزِ تعمیر
اگرچہ کافی حد تک کالاش والا ہی ہے جن میں پتھر اور لکڑی کا وافر استعمال ہوتا ہے۔
بالائی جنجیریت کوہ وادی کافی کشادہ ہے اور سرسبز بھی بہت ہے۔ ہریاول کی بڑی وجہ چشموں کی بہتات ہے،
جھرنے ہیں اور وادی کے وسط میں بہتی ندی یا چھوٹا دریا ہے۔ دریا پار کرنے کے اکثر پل بڑے مخدوش ہیں، جو
درختوں کے تنوں پے ہموار پتھر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ دریا اور ندیوں کے کنارے گندم/مکئی پیسنے والی پن
چکیاں ہیں اور کچھ لوگوں نے تو اپنے چھوٹے چھوٹے پن بجلی گھر بھی بنا رکھے ہیں۔ وادی کے زیادہ تر لوگوں کا
ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنا ہے۔ دریا کے کناروں پر ہریالے کھیت تو ہیں مگر موجودہ تین کالاش وادیوں
کی طرح خواتین بہت کم کھیتوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں۔ گندم اور مکئ یہاں کی بڑی فصلیں ہیں۔ کچھ مقامی نجی
نوکریاں بھی کرتے ہیں اور چند ایک چترال سکاؤٹس، پاکستان آرمی اور پولیس کے محکموں سے بھی منسلک ہیں۔
ابتدائی تعلیم سے میٹرک تک تو رسائی ہے، مزید تعلیم کے لئے دورش یا چترال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ صحت کے
حوالے سے سہولیات ناکافی نہیں ناپید ہیں۔ اگر کوئی سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہو تو (اور اگر یہ سردیاں ہیں اور راستہ
برف سے ڈھکا ہوا ہے تو مریض کو کاندھوں پر اٹھا کر) دورش ہی قریب ترین کی امید ہے۔ سیاحت کے حوالے سے
کوئی سہولت دستیاب نہیں، جب تک کوئی مقامی دوست، راہنما ساتھ نہ ہو تو یہاں جانا مشکل ہے کیونکہ یہاں کوئی
ہوٹل کوئی گیسٹ ہاوس نہیں، چند ایک دوکانیں ہیں جو وادی کی روزمرہ کی ضروریات پورا کرتی ہیں۔ پھل اور سبزی
تقریباً ہر کوئی اپنی اگاتا ہے تو دوکانوں پے نہیں ملتی۔ قومی شناختی کارڈ ساتھ نہ رکھنا آپ کو گھمبیر قسم کی مشکل
میں ڈال سکتا ہے، شائد آپ کو وادی میں جانے ہی نہ دیا جائے۔ سیاحتی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک اوکھی
وادی ہے ہاں حسن اس کا اَن چھوا ہے۔ یوگی بابا کے بقول ہمت طلب کرتی ہے جنجیریت کوہ وادی۔