جاروگو وادی (سوات): پاکستان کی بڑٰٰی آبشار آپ کی منزل
جاروگو وادی (سوات): پاکستان کی بڑٰٰی آبشار آپ کی منزل
تحریر و تصاویر: ڈاکٹر محمد کاشف علی
سوات ب سوات وادیوں کی وادی—– بہت کچھ مل جاتا ہے دیکھنے کو سوات میں، پر بات تو یہ ہے کہ سوات کب، کس کو اور کہاں بلاتا ہے۔ پہاڑ بہت نخریلے ہوتے ہیں بہت تڑپاتے اور ترساتے ہیں پھر کہیں جا کراذن ملتا ہے ملاقات کا—– میرا سوات سے یارانہ کافی پرانا نہ سہی پندرہادشاہوں کی وادی، سوات جھیلوں کی سرزمین، سوات جلترنگ جھرنوں کی، سوات بدھ مت کی وراثت کا امین اور/سولہ سالہ تو ہے ہی پر گذشتہ کافی برسوں سے سوات کے پہاڑوں کی طرف سے ازنِ باریابی نہیں ملا تو جا نہیں پایا یہاں تک کہ مقامی دوست بھی خفا کر بیٹھا—– جمود یا کفر کچھ تو ٹوٹا خدا خدا کر کے اور بلاوا ہی آگیا۔
سوات کا تو کونہ کونہ خوبصورتی کی تجسیم ہے، اک غزل ہے اور رنگ آمیزی ہے پر آج بات ہو گی سوات کے صرف ایک رنگ کی اور وہ ہے جاروگو وادی، جاروگو آبشار، جاروگو چراگاہ۔ مٹہ سوات کی سات تحصیلوں میں سے ایک ہے اور قدرتی حسن کی تجسیم ہونے کے باوجود سیاحتی مرکز نہیں، خال خال ہی سیاح اس طرف کو رخ کرتے ہیں۔ مٹہ کا بازار مینگورہ سے کوئی پچیس کلومیٹر شمال میں ہے۔ پہلے تو صرف مینگورہ کالام روڈ ہی ایک وسیلہ تھا مٹہ تک رسائی کا لیکن اب تو مینگورہ سے دریائے سوات کے مغرب میں بھی اچھا خاصہ روڈ آپ کو کوزہ بانڈی، سخرہ درا سے ہوتا ہوا مٹہ لے جا سکتا ہے۔ مٹہ اچھا خاصہ کوہستانی بازار ہے۔ مٹہ کے شمال مغرب میں کوئی پندرہ کلومیٹر کی دوری پر آغل کا قصبہ ہے۔ مٹہ سے آغل تک شائد آپ سڑک پر نہیں باغوں میں سفر کرتے ہیں کہ سڑک کے دونوں طرف آڑو، سیب، خوبانی کے باغات کی بہار ہے۔ اگر تو آپ گاڑی میں سست روی سے سفر کرتے ہیں اور باغوں کی ہوائیں چہرے پے پھوار کی طرح برستی ہیں تو یقیناً آُپ جلد ہی غنودگی میں چلے جائیں گے۔ کبھی آغل وادی میں سیب کی بہتات ہوا کرتی تھی مگر اب مقامی باغبان سیب کی بجائے آڑو کو ترجیح دیتے ہیں۔ مٹہ سے آغل کا سفر زمینی اور وقتی پیمانوں میں تو بہت تھوڑا ہے مگر دیکھنے کو، محسوس کرنے کو بہت کچھ ہے۔ باغات کے اوپر منڈلاتے بادل اور پکھیرو آنکھوں اور کیمرے کے لینز کو متحرک کرنے کو کافی سے بھی زیادہ ہیں اور پھر چپریال سے آگے نکل کر سڑک سے لگ کر بہتی آرنوی ندی نیند آلود اور خمار انگیز سندیسے بیھجتی ہے۔ چپریال مٹہ اور آغل کے وسط میں ندی کے مشرق میں آباد روائتی کوہستانی قصبہ ہے۔ چپریال کے بعد باغات سلسلہ وار شروع ہو جاتے ہیں جو ختم ہونے کو ہی نہیں آتے۔
چپریال کے بعد بڑا قصبہ آغل ہی ہے، آغل قصبہ کیا ہے بس یوں سمجھ لیجیے کہ باغات کے بیچ میں کچھ گھر بنا دیئے گئے ہو جیسے۔ آغل کے چاروں طرف باغات ہی باغات ہیں—– آغل کے مشرق میں خورڑ ندی جبکہ مغرب میں آرنوی ندی ہے اور ان ندیوں کا پانی گاؤں کی گلیوں میں نالیوں میں بہتا شرر شرر کا راگ الاپتا رہتا ہے، اک جلترنگ موجود ہے ہمہ وقت آغل کے سینے میں—– بطخیں، جو نالیوں میں تیرتی رہتی، نغمہ سرائی کرتی رہتی ہیں اور جنگلی گلابوں کی بیلیں ہلکے گلابی پھولوں سے کوملتا کا احساس دلاتی رہتی ہیں اور فضا معطر بناتی ہیں۔ جاروگو وادی اور آبشار جانے کے لئے آپ کو یہاں سے گزرنا ہی پڑے گا۔
آغل تک توآپ کوئی بھی گاڑی استعمال کر سکتے مگر یہاں سے آگے پہاڑ آپ کو آگے بڑھنے کی تب تک اجازت نہیں دیتا جب تک آپ جیپ یا کوئی بھی فور وہیل ڈرائیو کا انتظام نہیں کر لیتے۔ آغل اور بہا کے درمیان فاضل بانڈہ روڈ پہ برتھانہ، لابٹ، گوالیری، پشتونئی اور نلکوٹ کے قصبات آتے ہیں جن کے پرے دریا اور دریا کے پرے سبز مخمل جیسے پہاڑوں میں یوسفزئی پشتونوں اور گوجروں کے گھر۔ گوالیری کے مقام پر راستہ دوراہا بن جاتا ہے؛شمال مشرقی جیپ ٹریک آپ کو سُلانتڑ اور سپن سر لے جائے گا جہاں گوجروں اور برفوں کا راج ہے جبکہ اگر شمال مغربی جیپ ٹریک کے سینے پر آپ کی گاڑی مونگ دلتی ہے تو پھر آُپ بہا، چاٹیکل سے ہوتے ہوئے جاروگو جا رہے ہیں۔ فاضل بانڈہ روڈ پر بہا ایک بڑا قصبہ ہے جہاں سے آپ ٹریک کے لئے بیکری کے لوازمات لے سکتے ہیں۔ آگے راستے میں خال خال دوکان تو مل جائے گی مگر اب بازار نہیں آنا۔ بہا آپ کے راستے کا آخری بازار ہے جہاں سے دودھ، بسکٹ، نمکو، چاکلیٹ، بوتل، جوس وغیرہ لئے جا سکتےہیں، ہاں پانی اٹھانے کی کوئی خاص وجہ تو نہیں کہ راستے میں ندی یا چشمے کا پانی یقیناً بازاری پانی سے ہزار درجہ بہتر ہے اور آپ آبشار، ندی، چسشموں کی طرف ہی تو جا رہے ہیں۔ ہاں احتیاط کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک بوتل ساتھ رکھ لی جائے اور جب چاٹیکل سے ٹریک شروع ہو تو ندی سے پانی بھر کے ساتھ رکھ لیا جائے۔
بہا سے آگے کا راستہ جیپ/گاڑی کے لئے کافی دشوار ہے کہ سڑک ندارد اور چڑھائی بے پناہ، اگر تو آپ کھلی چھت والی جیپ میں ہیں اور کھڑے ہو کر بہا سے آگے فاضل بانڈہ وادی کے نظارے کر رہے ہیں تو اپنے اوپر جھکے درختوں کی شاخوں سے اپنے سر کو بچا کر رکھیں اگر سر سلامت لے کے جاروگو پہنچنا ہے تو—– کبھی تو آپ کی جیپ پہاڑ کے ساتھ لگ کے گزرتی ہے اور کبھی چھوٹی چھوٹی بستیوں سے پھوں پھاں کرتی گزر جاتی ہے۔ اور تھوڑا دور مگر سڑک کے مغرب کی طرف ندی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ بہا سے چاٹیکل، جو کہ جاروگو وادی کی جنوبی حد کا آخری گاوں ہے، کا سفر تو تقریباً سات/آٹھ کلو میٹر ہے پر جیپ دشوار راہ اور بلندی کی طرف چڑھنے کی وجہ سے چالیس منٹ سے زیادہ وقت لیتی ہے۔
چاٹیکل بستی سے اب آپ کو جاروگو چراگاہ کی طرف پیدل سفر کرنا ہے—– آپ جتنی بھی اچھی نسل کے سیاحتی خانہ بدوش ہوں لیکن پھر بھی اگر یہ پہاڑ، جنگل اور وادی آپ کے لئے نئ ہے تو بہتر ہے کہ ایک مقامی رہنما ساتھ لے لیا جائے۔ ایک تو وہ آپ کا وہ والا وقت بچائے گا جو جنگل میں کھو کر آپ نے راستہ ڈھونڈنے پر لگانا ہے دوسرا وہ علاقے کی معلومات کا ماخذ ہو گا۔
چاٹیکل بستی جاروگو جنگل کے کنارے آباد ہے—– تو آپ بستی چھوڑ کے جنگل باسی بن جاتے ہو اور چیڑ و دیار کے سوندھی خوشبو میں اوپر اور اوپر اور اوپر چڑھتے جاتے ہو۔ سانس ابھر آنا قدرتی ہے کہ اپ بلندی کی طرف جا رہے ہو سو ہمت باندھ کے رکھیں۔۔۔۔۔ کافی گھنا جنگل ہے جارو گو وادی کا کہ یہاں سردیوں میں کافی برف پڑتی ہے اور لوگ نیچے وادیوں مین مہاجرت کر جاتے ہیں سو ابھی تک تو جنگل کافی حد تک ‘انسان گردی’ سے بچا ہوا ہے—– ہانپتے ہانپتے، ہنستے کھیلتے، رکتے چلتے، ہواؤں کی اٹکھلیاں محسوس کرتے، پکھیرؤں کو دیکھتے ہوئے آپ جاروگو جنگل سے جارو گو سبزہ زار (جاروگو بانڈہ، بانڈہ پشتو میں چراگاہ کو کہتے ہیں) کو اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ جنگل ٹریک سے محظوظ ہوتے ہوئے آُ پ تقریباً دو گھنٹوں میں جاروگو بانڈہ پہنچ جاتے ہیں—– اک وسیع چراگاہ میں گوجروں کے چند گھر ملے گے اور چراگاہ میں چرتی وافر گائیں۔۔۔۔۔ گائیوں کو پیش منظر میں رکھ کر چراگاہ کی تصویر کشی اچھا خیال ہے پر خیال رہے کہ کسی تصویر کے پیش یا پس منظر میں کوئی چرواھن نہ آجائے۔۔۔۔۔۔۔ نہیں تو نہ کیمرا بچے گا نہ سر کہ پہاڑوں کی سختی کے جیسے سخت مزاج ہیں گوجر بھی۔
جاروگو بانڈہ کے مشرق میں اک مسجد ہے وہاں چشمے کا پانی بھی ہے، مسجد کے مشرق میں راستہ پھر جنگل میں اترتا ہے جو آپ کو کوئی بیس منٹوں میں جاروگو کے چشموں اور قدرتی تلابوں میں لے جاتا ہے—– یہ بہت خوبصورت مقام ہے کھانے پکانے کے لئے—– یہی وہ مقام ہے جہاں آپ جارو گو آبشار جانے سے پہلے تھکن اتارتے ہیں—– یہاں آپ ک ہر طرف پانی ہے اور برفناک سرد پانی ہے—– چھوٹی آبشاروں کی شکل میں پانی، جھرنوں کی شکل میں پانی اور تلاب ہی تلاب—– آپ نہا سکتے ہیں مگر ہمت کرنا ہو گی کہ یہ پانی تھوڑی دور اوپر گلیشئروں سے آ رہا ہے—– اگرتو آپ جلد یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو ایک دو گھنٹے جاروگو کی اس بہشت میں گزارے جا سکتے ہیں—– اگر تو آپ کھانا ساتھ لائے تو تناول فرما سکتے ہیں یا یہاں بنا اور پکا بھی سکتے ہیں، بس اتنا خیال رہے کے جاتے وقت آگ اچھی طرح بجھا کر جائیں —– یہاں سے آپ آبشار جانے کے لئے اس راستے سے نہیں جائے گے جہاں سے آئے تھے بلکہ آپ جھرنے کے مشرقی کناروں پہ قدم جما کر نیچے کا سفر کرتے ہیں—– اگر تو آپ کا وزن زیادہ ہے یا ٹریکینگ جوتے نہیں پہنے تو یہ خطرناک ہو سکتا ہے—– ٹریک پر آپ کو اپنا زیادہ وزن بائیں طرف رکھنا پڑے گا کہ دائیں طرف کھائی اور جھرنا ہو گا—– یہاں سے لے کے نیچے مرکزی آبشار تک راستے میں کئی چھوٹی چھوٹی آبشاریں اور تلاب آپ کی توجہ بار بار کھینچ لے گے۔
پچیس/تیس منٹ کی ‘آنکھ کھول قسم’ کی اترائی کے بعد جب آپ جارو گو آبشار کا پہلا نظارہ کرتے تو مبہوت ہی رہ جاتے ہیں کہ اتنی بڑی آبشار اور اتنا عرصہ گمنام رہی—– اور جیسے جیسے آپ آبشار کی قربت میں آتے جاتے ہیں اس کے پیار کی پھوار میں بیگھتے جاتے ہیں کہ دو سو میٹر دور تک بھی اسکی پھوار آپ کا پیچھا کرتی ہے—– لوگ کہتے ہیں یہ آبشار دوسوستر فیٹ کی بلندی سے گرتی ہے—– اور اتنی بلندی سے یہ آبشار گرتی لگتی نہیں—– خیر سے مینارِ پاکستان سے تو زیادہ بلندی سے گرتی ہے آبشار—– اوپر سے دو دھاروں میں آبشار گرتی ہےاور نیچے اک بہت بڑا تالاب بناتی ہے جس میں سے ندی نکل کر جنوب کو رواں ہو جاتی ہے—– یہ وہی ندی ہے جو آپکو چاٹیکل تک لے جائے گی—– جہاں سے آبشار گر رہی وہاں بھی جنگل ہے اور نیچے جہاں آُپ کھڑے ہو کے نظارہ کرتے ہیں وہ بھی جنگل ہی ہے—– جنگل، جھرنے، ندیاں آبشاریں اور چراگاہیں ایک ہی جگہ کم کم ملتی ہیں پر جاروگو وادی میں سب کچھ ہے اور ایک دن میں آپ سب کو اپنی یادوں کا حصہ بنا سکتے ہیں۔
اگر تو یہ گرمی کا موسم ہے اور چھٹی بھی ہے تو آبشار کے دامن میں میلے کا سماں بندھ سکتا ہے کہ پورے سوات سے مقامی سیاح جمعہ کو اور اتوار کو جاروگو کا رخ کرتے ہیں اور کچھ سیاح پاکستان کے میدانی علاقوں کی گرمی سے فرار حاصل کرنے کو بھی ادھر کا رخ کرتے ہیں—– اگر تو جاروگو آپ کو بلائے تو خوش قسمت ہیں آُپ اور اک لمحہ ضائع کئیے بغیر لبیک کہہ اٹھے۔