بروغل گھاٹی اور اس کے باسی: ایک سفر، ایک اظہاریہ
بروغل گھاٹی اور اس کے باسی: ایک سفر، ایک اظہاریہ
ڈاکٹر محمد کاشف علی
شعبہ تاریخ، جامعہ گجرات
یہ سن 2007 تھا جب پنجاب کے میدانوں اور لاہور سے کوہِ ہندوکش کی گھاٹیوں اور پہاڑوں کی طرف پہلا پہلا سفر کیا
جو آہستہ آہستہ زیست کا سفر بن گیا کہ چترال کے قدیم کالاش قبیلے پر تعلیمی و تحقیقی کام کی وجہ سے چترال کا سفر
ایک سفرِ مسلسل کا روپ دھار گیا، اب جب کہ 2019 میں کالاش قبیلے کی تاریخ و ثقافت و تبدل پر جامعہ پنجاب سے
ڈاکٹریٹ کر لی تو بھی چترال سے من نہیں بھرا اور اس ربط کو برقرار رکھنے کے لئے “منتخب” کا عَلم اٹھائے بروغل
کی گھاٹی سامنے آن کھڑی ہوئی۔۔۔اور چترال دیس کی انتہا کی آخری زمین و قوم کو منتخب کر لیا گیا۔۔۔یہ انتخاب
بہرکیف سوز و ساز ہر دو طرح کی کیفیات اپنے سنگ لایا۔
اس اظہاریے کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
1۔ بروغل کا مختصر تعارف
2۔ بروغل کی فطری خوبصورتی و سیاحت اور
3۔ بروغل کے وخی لوگوں کے سیاحوں کی بابت رویے۔
بالائی چترال پاکستان کے شمال مغرب میں آخری ضلع ہے ( پاکستان تحریکِ انصاف کی مرکز میں حکومت بنانے سے
پہلے تک چترال ایک ہی ضلع تھا اب دو ہیں، بالئی چترال اور زیریں چترال) اور زیریں چترال سے جب شمال مشرق
میں کوئی 250 کلومیٹر سفر کیا جائے تو بروغل وادی ہے جو افغناستان کی واخان پٹی کے ساتھ متصل ہے اور اس تنگ
واخان پٹی کے دوسری طرف جمہوریہ تاجکستان کی ریاست ہے جس کو1991 میں سویت یونین (موجودہ روس) سے
آزادی ملی۔ کچھ مقامات پر تو واخان کی پٹی کی چوڑائی 20 کلومیٹر سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے
حالیہ بروغل کی سیاحت میں جو مشاہدے میں آیا کہ زیریں چترال کے ضلعی مرکز چترال ٹاؤن سے لیکر بالائی چترال
کے ضلعی مرکز بونی تک راہ میں کوئی خاص تفشیش پڑتال نہیں کی گئی مگر بونی سے نکل کر بروغل تک (پاکستان
آرمی، چترال سکاؤٹ، لیویز، بارڈر پولیس وغیرہ نے) سات بار غیر مقامیوں کی تفشیش و پڑتال کی اور رجسٹر میں غیر
مقامیوں کے کوائف کا اندراج کیا گیا۔ آخری چیک پوسٹ پر تو ہم بے شناختے کر دیے گئے کہ ہمارے قومی شناختی
کارڈ جمع کر لئے گئے تھے۔
بروغل رہنے و سیاحت دونوں کے لئے ایک مشکل ترین علاقہ ہے، چترال ٹاؤن اور مستوج تک تقریباً 120 کلومیٹر تک
سڑک موجود ہے۔ مستوج سے یارخون لشٹ تک گو کہنے کو جیپ ٹریک ہے مگر نہیں ہے، 2014 میں فیری میڈوز کا
جیپ ٹریک مجھے تب سب سے خطرناک لگا تھا، اب وہ نسبتاً آسان لگتا ہے۔ اصل میں سیلابوں کی وجہ سے مستوج
سے یارخون جانے والا راستہ مسدود تھا اور جو متبادل زمیں سے آسماں کو چھوتا راستہ جیپ نے لیا تو دل تو تھا مگر
خون خشک کئیے ہوئے۔ یارخون وادی کے اخیر پر بروغل کا پہلا گاؤں کشمانجہ آتا ہے تو یارخون سے بروغل تک بھی
کہنے کو جیپ روڈ تو ہے مگر جیپ اکثر پانیوں سے سلام دعا کرتی رہی کہ یا تو ندی، نالوں اور چشموں کا پانی جیپ
کی راہ میں آتا رہا یا پھر راستہ معدوم و مسدود ہونے کی وجہ سے جیپ خود ندی کے پانیوں میں اترتی رہی۔ مستوج
سے آگے یارخون اور بروغل کا سفر مشکل تو ہے ہی مگر اعصاب شکن بھی ہے۔
بروغل پاکستان کے کم سیر کئیے جانے والے علاقوں میں شمار کیا جا سکتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ وہاں
پہنچنے کی سہولیات کی کمیابی و مشکلات ہیں، کچھ اس میں مقامی وخی لوگوں رویہ بھی حصہ ڈال دیتا ہے۔ بروغل کا
حسن مہبوت کر دینے والا ہے، سرسبز چراگاہیں، انگنت چشمے، شفاف ندیاں، صاف و شفاف چھوٹے چھوٹے وخی
گاؤں، قرنوں سے خوابیدہ برف زار، بلند و بالا برف پوش چوٹیاں اور ہاں بہت ساری مختلف رنگوں کی جھیلیں جن کی
سرخیل جھیل ہے قرومبر جھیل۔ وادیِ بروغل یاک اور گولڈن مارموٹ (کھن چوہا) کا گھر ہے۔ مارموٹ ایک بہت ہی
خوبصورت گلہری نما جانور ہے جو خرگوش کے برابر اور اکثر اس سے بھی بڑا ہوتا ہے۔
بروغل میں وخی لوگ رہتے ہیں، میرا خیال تھا کہ ان کی بروغل میں کل آبادی 2500 نفوس پر مشتمل ہے مگرایف ایل
آئی (اسلام آباد) کے ڈائریکٹر فخرالدین اخونزادہ صاحب کے مطابق ان کی آبادی تقریباً 1500 نفوس پر مشتمل ہے۔
چترال کے مایہ ناز مورخ اور پروفیسر ڈاکٹر عنائت اللہ فیضی (تمغہء امتیاز) اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالہ میں رقمطراز ہیں
کہ ان کو وخی، واخانی اور پامیری تاجک کہا اور لکھا جاتا ہے۔ فیضی صاحب کے مطابق چترال (بروغل) میں پہلی بار
واخیوں نے انیسویں صدی کے نویں عشرے میں ہجرت کی جبکہ دوسری ہجرت بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں
ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا کہ بروغل کو آباد کرنے والے وخی یہاں بہت عرصہ سے نہیں ہیں۔ اصل میں بروغل رہنے کی
جگہ ہی نہیں ہے بلکہ چراگاہ ہیں مگر واخان و تاجکستان سے آنے والے وخیوں نے اس کو اپنی مستقل رہائش گاہ بنا
رکھا ہے اور بہت ہی مشکل حالات میں زندگی جی رہیں ہیں۔ وہاں نہ پھل ہیں نہ سبزیات اور نہ جلانے کو لکڑی۔۔۔۔ ہاں
پانی ہے اور وافر ہے، جلانے کے لئے فقط گھاس یاپھر گائے و یاک کو گوبر کا ایندھن۔
اب بات کرتے ہیں بروغل واسیوں کے سیاحوں کی بابت رویوں کی جو قابلِ تعریف و توصیف بلکل بھی نہیں ہیں بلکہ
اکثر تو کوفت کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں میں عمومی بات کرنا چاہتا ہوں سب کی نہیں گو کہ دل و جاں سے مہربان بھی
ہمیں وہاں ملے۔
جیسا کہ بتا چکا کہ چراگاہوں اور وافر پانیوں کے علاوہ بروغل میں مقامیوں کے لئے کچھ نہیں جس نے انتہا کی غربت
کو پروان چڑھایا اور اس کے اثرات سیاحت پر بہت برے مرتب ہو رہے ہیں کہ مقامی لوگ سیاحوں کو اپنے کلائینٹ
زیادہ ایک قربانی کا بکرا سمجھتے ہیں جس کو الٹا لٹکا کر اس کی کھال اتاری جاتی ہے، مقامی لوگ سیاح کو سونے
دینے والی مرغی ہی سمجھ لیں، مگر نہیں وہ اس مرغی کو پکڑ کر سارے انڈے ایک ہی بار میں حاصل کرنے کی تگ
و دو میں ہوتے ہیں۔
جیسا کہ لکھا جا چکا کہ بروغل ایک سخت علاقہ ہے اور اس تک رسائی اور بھی مشکل ترین، راہ میں پڑنے والی ندیاں
اور خطرناک جیپ روڈ اس کو اور مشکل بنا دیتے ہیں۔ ان وجوہات سے سالانہ بہت کم سیاح بروغل وادی پہنچ پاتے ہیں
اور جو پہنچتے ہیں وہ غربت کے بوجھ تلے پسی ہوئی عوام کے لالچ کے شکار ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ بس کچھ کچھ
مری والوں جیسا رویہ ہوتا ہے کہ جہاں محسوس ہوا کہ آپ پھنس گئے ہیں تو بس بلیک میلنگ کا آغاز ہوا نہیں۔ صرف
ایک مثال سے اندازہ لگاتے ہیں۔ ٹریک کے دوران ایک دن میں گرم چشمہ (بروغل کا تیسرا گاؤں) سے لشکر گاز تک
تقریباً 27 یا 28 کلومیٹر کی پیدل مسافت طے کی، پہلے کبھی آبلے نہیں پڑے پاؤں میں اس بار پڑ گئے، ساتھ میں کزن
بھی تھا اس کے پاؤں کا حال بھی برا ہی تھا بس کالاشہ دوست کے پاؤں محفوظ تھے تو اگلے دن لشکر گاز سے کرومبر
جانے کی بجائے گرم چشمہ کو واپسی کی راہ لی۔ واپسی کا سفر آبلہ پائی کی وجہ سے اور سخت مشکل تھا۔ آدھے سے
زیادہ راستہ آبلوں پر کاٹن کی پٹیاں باندھ باندھ کر جیسے تیسے کیا مگر آبلے پھٹ جانے کے بعد چلنا تو کیا رینگنا بھی
محال تھا مگر رینگا کیے۔۔۔۔۔ آخری آٹھ کلومیٹر چلے نہیں جا رہے تھے۔ اب یا کیمپ کیا جاسکتا تھا یا پھر گھوڑا کیا
جاسکتا تھا اگر کیمپ کرتے تو اگلی صبح تک کونسا آبلے ٹھیک ہو جانے تھے، سو دیر سے سہی مگر منزل پر پہنچنا
مجھے بہتر لگا سو قریب کے گاؤں (گَریل) میں سے گھوڑے کا پتہ کیا جو نہیں ملا کہ “گھوڑا پولو کھلنے گیا ہوا تھا”
مگر ایک دو بائیک وخی گھروں کے سائے میں نظر آئی، ایک “استاد” صاحب سے بات کی تو حالات کی “نزاکت”
سمجھتے ہوئے آٹھ کلومیٹر کا سفر کا “نرخ” 2500 روپے طے ہوا جو کہ جیب پر بھاری تو تھا ہی مگر طبعیت بوجھل
کرگیا کہ “ایک اور مری”۔ اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں جن سے دل اچاٹ ہوا کہ یہ لوگ سیاح کو اپنا کلائینٹ کیوں
نہیں سمجھ رہے تھے۔ یہی حال پورٹر، گدھے والوں، گھوڑے والوں اور جیپ والوں کا بھی تھا، جیپ والے اکثر مستوج
یا چترال سے ہوتے ہیں، بروغل والوں کی تو چند ایک ہی جیپیں ہیں۔
اس سیاحتی دورے سے میں تو یہ سیکھا کہ سیاحوں کم از کم چھے سات کے گروپ میں جانا چاہیے چترال سے ہی پانچ
یا چھے دن کے لئے جیپ بک کروائیں جو آپ کو چترال سے بروغل کے آخری گاؤں لشکر گاز تک لے جائے اور
واپس چترال لے آئے۔ لشکر گاز سے کرومبر ایک دن کی پیدل مسافت پر ہے، گھوڑے بھی لئے جا سکتے ہیں۔ راشن
بہتر ہے چترال ٹاؤن سے پورا کر لیا جائے۔ مجھے مستوج سے (جو کہ ضلع بالائی چترال کا بڑا کوہستانی قصبہ ہے)
جام تو مل رہا تھا مگر ڈبل روٹی ندارد۔ بارشوں کے موسم اور سخت گرم موسم میں سفر سے اجتناب کرنا چاہیے کہ
بروغل کے ندی نالے طغیانی کے باعث عبور کرنا مشکل ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے سیاحت کے لئے مئی اور اس کے
بعد اگست و ستمبر بہتریں مہینے ہیں۔ جون و جولائی میں گلیشئر بھی پگھلتے ہیں اور بارشیں بھی آتی ہیں، ندی نالے
بپھرتے ہیں، راستے مخدوش و معدوم ہوتے ہیں اور کئی کئی دن کے لئے ٹریفک کی بندش ہو جاتی ہے اور ایسے میں
اگر بروغل والے مری وال بن گئے تو نتیجہ کا اندازہ خود لگا لیں۔ یہ نہیں کہ سب برے ہیں، اچھے بھی ہیں اور بہت
اچھے بھی، مہمان نواز بھی ہیں۔۔۔۔ بس جب جب انسان کو بطور سیاح دیکھتے ہیں تو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ اس سے
سیاحتی و کاروباری معاملات طے کیسے کرنا ہے، بس پھر چھری تیز ہو جاتی ہے۔ اگر گھوڑا، گدھا، پورٹر۔ جیپ
کرتے ہیں تو ہر چیز تفصیل سے پہلے طے کر لیں۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بروغل کے وخی لوگ بہت سادہ مزاج ہیں، دنیا کو بہت زیادہ نہیں جانتے ہیں۔ یہ
لوگ جتنا جلدی سیاحت کو ایک صنعت کے طور پر اپنا لیں گے ان کے لئے بہتر ہوگا، غربت کے سائے بھی کم ہو
جائیں گے، گریہ سیاحت کو صنعت کے طور پر نہ اپنا سکے تو جلد ہی یہ خالی جگہ کوئی اور پُر کر دے گا، سوات کا
کالام اس ایک مثال ہے۔ بروغل یقیناً چترال سے بہت دور ہے اور مشکل راستوں کی وجہ سے نرخ زیادہ ہونا سمجھ سے
باہر نہیں مگر سیاح کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں کہ وہ آپ کی منفیت کا سفیر بن جائے، بلکہ اس کو ایسا نرخ دیں کہ وہ
اور سیاحوں کو وادی میں بھیج کر آپکی معیشت میں مثبت کردار ادا کرے۔ میرے لئے یہ بات بہت اچنبے کی تھی کہ
بروغل میں میرے پانچ دن کے قیام میں کل پانچ سیاح وادی میں موجود تھے، تین ہم لوگ اور دو خواتین اسلام آباد سے
۔۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ جولائی جیسے سیاحتی موسم میں پانچ دن میں صرف پانچ سیاح!!!! یقیناً مشکل راستوں اور سیلاب
کی وجہ سے لوگوں نے اس وادی کا رخ نہیں کیا، مگر پاکستان میں سیاحت کے دیوانوں کی کمی نہیں، وہ پاگل پن کی
حد تک جاتے ہیں اگر وہ بروغل کا رخ نہیں کرتے تو وجہ صرف مشکل رسائی ہی نہیں یہاں کے لوگوں کے رویے بھی
ہیں۔
سرکاری سطح پر اب کس کس چیز کا رونا رویا جائے، بروغل میں رہنے والے بھلے ایک صدی قبل جہاں سے بھی آئے
ہوں وہ اس وقت پاکستانی ہیں اور ان کے بھی آئین کے مطابق سب کے جیسے حقوق ہیں، ان کو بھی اچھی معیاری
زندگی جینے کا حق ہے۔ سردست ضلعی حکومت کو بروغل کے ہر گاؤں سے چار چار، پانچ پانچ نوجوانوں کو لے کر
کسی سیاحتی ادارے سے انکی تربیت کروانی چاہیے کہ وہ سیاحت کو بطورِ صنعت اختیار کریں، کرنے کو اور بھی
بہت کچھ ہے اگر اتنا بھی حکومت یا ضلعی حکومت یا کوئی اور نجی و سرکاری ادارہ کر دے تو 1500 کی آبادی والے
بروغل کی معیشت پر کافی اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اگر آپ بروغل کا پروگرام بنا رہے ہیں تو وادیِ بروغل کے گرم چشمہ گاؤں کا تاج علی بیگ آپ کو تازہ حالات سے
جانکاری دے سکتا ہے، میں تو تاج علی بیگ کو بروغل کا تاج کہتا ہوں کہ اتنے نامساعد حاالت میں اس جوان نے
یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کی ہے کو یقیناً ایک کارِ داد ہے۔ تاج اپنی بروغل کی دنیا اور بروغل سے باہر کی دنیا سے
اچھی واقفیت رکھتا ہے تو یقیناً آپ کو اچھے اور مفید مشورے دے سکتا ہے۔ بروغل کے تاج، تاج علی بیگ سے فیس
بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔