موہلی آبشار کی ان کہی داستان
موہلی آبشار کی ان کہی داستان
تحریر و تصاویر: محمد کاشف علی
کہتے ہیں پیار کے بغیر تو زندگی ممکن ہے پر پانی کی بغیر نہیں اور ایک بار جبران خلیل جبران
نے کہا تھا کہ پانی کے ایک ایک قطرے میں بحرِ بیکراں پوشیدہ ہوتا ہے—– اور پانی تو کشمیر کی
رگ رگ میں بہتا ہے، ہر موڑ پہ کوئی چشمہ ہے جو کھلی کوہستانی بانہوں میں آپ کو بھرنے کو
ہے، تھوڑی ہمت جمع کیجیے اور اتر جائیں۔
وادیِ کشمیر کے دس اضلاع میں سے ایک کوٹلی ہے جو کئی ایک ذیلی وادیوں کا کوہستانی گلدستہ
ہے، ہے تو یہ زیریں کشمیر اور بہت زیادہ بلندی پر نہیں پر پھر بھی کھوئی رٹہ کے چیڑ کے جنگل
ایک اظہاریہ ہے کے آپ چیڑ اور پائن کے ماحول میں رچے جا رہے ہیں، ہوائیں مدھر سُر بکھیرتی
ہیں اور پکھیروں تال ملاتے ہیں—– کوٹلی تاریخ اور حسن کا خوبصورت ملاپ ہیں جہاں صدیوں
پرانے قلعے اور منادر بھی ہیں اور ذیلی وادیوں میں چشمے، آبشاریں، جھرنے، دریا اور سر سبز
چراگاہیں بھی ہیں۔
اگر پنجاب سے کشمیر کو سفر کریں تو کوٹلی کے گل پور قصبے کے جنوب میں (کوٹلی میر پور
روڈ پر) واقع موہلی آبشار ایک مثالی جگہ ہے جو سیاحوں خوش آمدید کہتی ہے—– گل پور صدیوں
سے ایک پہاڑی خوابیدہ قصبہ تھا اب دیو ہیکل مشنیری اس کو مسلسل جگائے رکھتی ہے کہ 2014
گل پور ہائیڈرو پراجیکٹ ساتھ لایا جو 2018 میں تکمیل کے ساتھ 100 میگا واٹ کی توانائی کا منبع
ہو گا—– قصبے سے (جنوبی طرف) تین چار کلو میٹر کی مسافت پر موہلی پل آتا ہے بس اسی سے
نیچے اتر جائیں—– اگر تو ذاتی سواری ساتھ ہے تو پل کے آس پاس اسکو پارک کرنا پڑے گا کہ یہ
یاترا تھوڑا سا پاؤں کو کھل کھیلنےکا موقعہ دیتی ہے اور آپ جیسے ہی سڑک سے نیچے اترتے ہیں
تو خود کو ایک سر سبز منظر کا حصہ بنا دیکھتے ہیں—– اگر تو آپ ساون بھادوں میں موہلی آبشار
کی راہداریوں میں اترتے ہیں تو آپ دھنی ہیں کہ موہلی نالہ ایک چراگاہ کا منظر پیش کرتا ہے اور
آپ ننھے ننھے سفید، گلابی، پیلے اور جامنی پھولوں کو تکتے آبشار کا سفر کرتے ہے جو سڑک سے
ایک کلومیٹر سے زیادہ ہرگز نہیں—- آبشار جہاں بہتی ہے وہاں نہ صرف لینڈ اسکیپ وسیع ہوتی ہے
بلکہ آپ کی خوشیوں کا کینوس بھی وسعت انگیز ہو جاتا ہے اور آپ ایک کائیناتی خاموشی کے ساتھ
آبشار کے دھارے اور کنارے بیٹھ کر اسکی جلترنگ سنتے ہیں—– یوگی بابا کہہ گئے تھے کہ اچھی
نسل کا آوارہ گرد کبھی آبشار کنارے باتیں نہیں کرتا بس آبشار کو سنتا ہے اور آبشار کو ان کہی سے
سناتا ہے اور اپنے بڑھاپے اور اکلاپے کی یادیں اکھٹی کرتا ہے —– جہاں آپ بیٹھے ہیں زرا غور
سے دیکھیے کی ہر طرف جو پتھر آپکو نظر آ رہے ہیں وہ پانی کی دھار سے کیسے ملائم ہو چکے
ہیں، شائد ہی کوئی کاریگر پتھروں کو ایسا ملائم کر سکے، لاکھوں برس کے زماں نے ہی یہ کاریگری
دکھلائی ہے—– صرف انسان اور حیوان ہی جوڑوں میں نہیں رہتے کبھی کبھی آبشاریں بھی بیاہ رچا
لیتی ہیں، جوڑے بنا لیتی ہے تو موہلی آبشار بھی دو آبشاروں کا ایک جوڑا ہے کہ پہلی آبشار ایک
تالاب بناتی ہے اور تھوڑا آگے تلاب ایک اور آبشار کو جنم دیتا ہے—– اور پھر یہ دو آبشاروں اور دو
تالابوں کے سوھنی ماہیوال اپنا آپ پونچھ دریا میں بہا دیتے ہیں—– پونچھ دریا برفوں کے گھر ہمالیہ
کے پیر پنجال حصے سے اٹھان لیتا ہے اور یہ دریا سیاسی یا انتظامی تقسیم سے نابلد ہے اسی لئے
کسی شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا ویزا کی پرواہ کئے بغیر بھارتی مقبوضہ کشمیر سے اپنے پورے
شوروغل کے ساتھ پاکستانی کشمیر میں داخل ہوتا ہے اور اپنا آپ منگلا ڈیم کی جھیل میں خالی کر
کے بے انت پھیل جاتا ہے۔
آبشاروں کے پانیوں میں نہانے کا دل کس کا نہیں کرتا، بس احتیاظ لازم ہے۔ اور ہاں آپ کے آس پاس
ہی تھروچی قلعہ بھی صدیوں کی داستان سنانے کو بیقرارہے، سن لینے میں حرج ہی کیا ہے کونسا
آپ نے روز روز یہاں آنا ہے۔