سیف الملوک سیفی: اِک کوہستانی رومانس کی داستان

تحریر: محمد کاشف علی

تصاویر: محمد کاشف علی، شائستہ کاشف

جھیل سیف الملوک سے میری شناسائی کوئی پچیس برس پرانی ہے جب سکول کے ایام میں وادیِ کاغان کی سیر جیسے
کوئی نام کا ایک باب نصاب میں ہوا کرتا تھا۔ پھر وقت پر لگا کے اڑتا رہا اور کسک تھی اک جو سینے میں پلتی رہی۔
کسک جوان ہو گئی اور بھلا ہم کیوں پیچھے ہٹتے تو ہم بھی جوان ہو گئے۔ ہاں یہ وہ ہی ایام ےتھے کالج کے جس کی یاد
میں شعراء صفحے اور مصور کینوس بھرتے ہیں اور پھرانہی کالج کے آخری ایام میں میرا پہلا ملاپ ہوا سیف الملوک
سے- یقین مانئیے میرا کہ لاکھوں برسوں سے جھیل سنگی بانہوں میں خوابیدہ رہنے کے باوجود دوشیزگی و کنوارگی
کی جھلک دکھلا رہی تھی، من لبھا رہی تھی۔ پیریاں تو نہ اب اترتی ہیں نہ تب اتری تھی پر جو حسن جھیل کا سادگی میں
تھا پھر مجھے کبھی نہ ملا کہ وقت اور سیاحوں کے لشکر (اور لشکرشائد ہی کبھی شائستہ ہوتا ہو) نے جھیل کی
دوشیزگی کو دو اڑھائی دہائیوں میں پامال کر دیا۔ پہلی ملاقات کے تین ہی برس بعد 2003 میں سیف الملوک نے پھر
بلاوا دیا تو انکار کیسا، مہینہ اکتوبر کا تھا اور ٹھنڈی ہوائیں ہڈیوں تک میں پیوست ہوتی محسوس ہوتی تھی پر جھیل کا
حسن تو اب کی بار کسی اُپسرا کا سا تھا۔ بے وجہ کے لوگ مفقو د تھے، ہم تھے، جھیل کی سطح پر محوِ رقص سرد
ہوائیں تھیں اور جھیل کنارے پیار کے آخری جامنی پھول کہ سرما کی آمد آمد تھی اور ہاں جھیل میں نہ کشتی تھی نہ
اس کے کناروں پر کوئی قیام گاہ بس مغربی سمت ایک سنگی و فولادی ہٹ جو تقریباً ہر پوسٹ کارڈ کی زینت بنا کرتا
تھا اور شمالی سمت میں ڈھائی اینٹوں والی مسجد! اور پھر میرا سیفی کے ساتھ ہنی مون ختم ہو گیا کہ 2004 میں سیفی
مجھے پھر سے دامن گیر کیا کرتی ہے کچھ کچھ من سے ہی اتر جاتی ہے، من میلا کر جاتی ہے کہ اب کے بار مجھے
وہ کچھ کچھ بازاری سی لگی جو ہر کسی کی بانہوں میں چلی جاتی ہے بلا کسی میعار کے، بلا کسی قول قرار اور بلا
کسی وقار کے۔ اس کا رکھیل پن مجھے نہ بھایا کہ مہینہ اگست کا تھا، نیا کشادہ جیپ روڈ بن چکا تھا اور اس دن
بلامبالغہ ہزاروں حملہ آور (وہ سیاح جو اپنا انتشار و گندگی کا عفریت جھیل کی “گود بھرائی” کی صورت میں چھوڑ
جاتے ہیں) آئے اور کسی گنوار لشکر کی طرح جھیل کی عصمت کو تار تار کر گئے۔ ایک خیمہ بستی تھی جو جھیل کے
نازک بازؤں پر میخیں گاڑھ کا بنائی گئی تھی، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی کہ نیچے ناران کے قصبے سے
صرف جیپیں ہی نہیں ہر قسم کی گاڑیاں اور بخدا ٹریکڑ ٹرالیاں بھی جھیل کی سلطنت میں در آئی تھیں، ایک طوفانِ

بدتمیزی تھا۔ اور تو اور جھیل کے مرمریں سیال سینے پر تیرتی سرخ رنگ کی کشتی مجھے زہر اور اس میں بیٹھے
لوگ مجھے ہوس کے پجاری لگے کہ بھلا نازک سیفی کا سینہ اٹھکھلیاں کرتے بے ہنگم سیاحوں بلکہ سیا ہ روؤں کے
لئے تھوڑی تھا۔
بس اسی دن سے میرا سیفی سے آدھا تعلق ٹوٹ گیا کہ اب میں سیفی کو بتا دیا کہ آئیندہ وہ مجھے کبھی بھی حملہ آوری
کے موسم میں (مئی تا ستمبر) نہ بلائے وگرنہ مان ٹوٹ جائے گا—– مجھے اسی وجہ سے بڑا پیار آتا ہے اپنی سیفی
پے کہ اس نے مان رکھ لیا اور پھر مجھے گرما میں کبھی نہیں بلایا کہ اسکی بربادی دیکھ کے مجھے جو دکھ ہوتا ہے
وہ کوئی یوگی بابا کوئی اصیل نسل کا خانہ بدوش ہی سمجھ سکتا ہے۔
پھر یوں ہوا کہ فطرت کے کچھ کائناتی اشارے ملے اور میں لبیک کہتا ہوا سرما کی سرد دوپہروں اور سردناک راتوں
میں سیفی کی طرف کھنچتا چلا گیا اور سیفی نے بھی سارے پرانے گلے شکوے دور کر دئے کہ اسنے اب کی بار اپنا
سیمیں بدن اور نقرئی روح مجھے دان کر دی—– ناران کے کوہستانی قصبے سے نکلتے ہی سیفی محبوبہ کو جاتی
راہگزر کی اطراف میں کوہساروں اوردرختوں نے اپنی موسمی حیاء کی وجہ سے سپید برف کی ردا اوڑھ لی تھی، بادل
ثقیف اور بوجھل تھے سفید گالوں کے بوجھ سے پھر یوں ہوا کہ بادل ہمت چھوڑ گئے اور گالے امڈ امڈ کر میری سیفی
محبوبہ کو جاتی راہ کو سفید قالین سے ڈھاپنے لگے اور ہم جس جیپ کے قیدی تھے اسکے پاؤں برف نے جھکڑ لئے
تھے—– اب کے بار تو سیفی پورے نخروں پر تھی کہ “آؤ میری یاترا کو پیدل آؤ” اور اس نے سرد ہواؤں کے سنگ
سندیسہ بھی بھیج دیا تھا، “خبردار جو گھوڑے استعمال کئے”۔ ابھی جھیل تک پہنچنے میں آدھا راہ باقی تھا کہ میں اور
میری نصف بہتر (ویسے ہے تو وہ ساری کی ساری بہتر ہی پر محاورے کی لاج بھی تو رکھنی ہے ناں) دو مقامی
دوستوں کے ہمراہ سیف الملوک کے برف زار میں آگے بڑھتے ہیں اور بادل ہیں کہ جی کھول کر ہمارے اسقبال کو نرم
ترین اور سفید ترین پھول نچھاور کرتے ہیں—— خارجی طور پر ہم سرد تھ مگر کم از کم میں داخلی طور آتش انگیز
تھا کہ میرے دل کی تپش نے مجھے گرما رکھا تھا کہ سیفی نے مان رکھ لیا اور “جنگی موسم” میں نہیں بلایا، اس نے
مجھے تخلیئے میں یاد کیا تھا۔ دو گھنٹوں تک ہم نرم برفیلے قالین پر قدم قدم آگے بڑھتے رہے کہ ایک بار پھر سیف
الملوک اپنی پوری رعنائیوں اور دوشیزگی کے ساتھ کوہستانی بانہوں میں نخریلے انداز میں خوابیدہ تھی کہ کوئی آنے
والا ہے کہ کوئی جگانے والا ہے۔ حقیقیت تو یہ ہے کہ اب کے بار مجھے یہ الھڑ مٹیار ہی لگی کہ ابھی یہ انگڑائی لے
کر نیم وا آنکھوں سے چاروں طرف کا نظارہ کرے کے اٹھے گی تو پربت و بادل کیا نظارہ خود بھی وجد میں آ جائے گا۔

اب کے بار تو اس نے نخرے کی حد ہی کردی اور جرعہ جرعہ اپنا دیدار دیا وہ بھی ادھورا کہ برف کی سمیں رِدا نے
سیفی کی با نہوں (کناروں) کو تو ڈھانپ ہی رکھا تھا پر گہری دھند نے بھی اب کے بار سیف الملوک کی خوب خوب
حفاظت کی تھی اور جھیل کے ایک کنارےسے دوسرا نظر نہیں آتا تھا حالانکہ اصیل کوہ نورد جانتے ہی ہیں کہ جھیل
لمبائی میں ایک اور چوڑائی میں آدھا کلو میٹر طویل ہے—– جھیل سیف الملوک جانا اور پہاڑوں کی رانی ملکہِ پربت
کا نظارہ کرنا ہر کوہ نوردہ کی چاہ ہوتی ہے۔ مگر اس بار دھند کے اُس پار دیکھنا محال تھا اور مجھے قطعاً کوئی کوفت
نہیں ہوئی کہ میں کیوں ملکہ کے دیدار سے محروم رہا بلکہ سفید برف کی چادر اور دھند کے غلاف میں لیپٹی جھیل کا
“با حیا” ہونا دل کو چھو گیا۔ مجھے سیفی نے تب انپے پاس بلایا جب بس ہم تھے، چائے کا اک ڈھابہ، برف کے بوجھ
تلے سانسیں لیتی کشتیاں اور وافر مقدار میں پچھلے چار گھنٹوں سے گرتی برف جو جھیل کو مسلسل ملفوف کرتی جا
رہی تھی—– اور وہ جو گرتی برف میں سیفی کی بانہوں کی قربت میں چائے پی تھی وہ چائے تو نہیں تھی کوئی اور
ہی کائناتی سیال تھا، اس جیسا ذائقہ پھر کبھی نہ ملا۔
یوگی بابا کہتے ہیں کہ اصیل خانہ بدوش مسلسل قیام کبھی نہیں کرتا چاہے اسے بہشت کی پیشکش کیوں نہ کردی جائے،
تو بس یوگی بابا مجھے مار گئے نہیں تو کون سیفی کو چھوڑ کے واپس آتا ہے۔

Add a Comment

Your email address will not be published.