سماہنی وادی کی پوشیدہ آبشار
سماہنی وادی کی پوشیدہ آبشار
تحریر و تصاویر: ڈاکٹر محمد کاشف علی
ہمالیہ کو دنیا کا “نوجوان” پہاڑی سلسلہ کہا جاتا ہے جو بلا شبہ عمر میں کم ہے پر جسامت و ضخامت میں دنیا بھر کے
پہاڑی سلسلوں سے طویل القامت بھی ہے اور “طویل الطوالت” بھی جو مغر ب میں بونجی (گلگت کا جنوبی نواحی
علاقہ) سے شروع ہوتا ہے تو پھر مشرق کو چلتا ہی جاتا ہے، چلتا ہی جاتا ہے ۔ نہ اسے سیاسی سرحدی بندی نظر آتی
نہ پاسپورٹ کا بکھیڑا کوئی اس کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ پاکستان سے کشمیر (پاکستانی و بھارتی)، بھارت، نیپال اور
بھوٹان تک ہمالیہ نے اپنے کوہستانی بازو پھیلا رکھے ہیں۔ ہمالیہ کی ہی گود میں دنیا کی خوبصورت وادیاں ہیں، وادیاں
کیا ہیں بس اپسراؤں کی راجدھانیاں ہیں۔ پاکستانی کشمیر کے ضلع بھمبر کی سماہنی وادی بھی انہی میں سے ایک ہے۔
چونکہ سماہنی وادی پائین ہمالیائی زون میں ہے تو بہت زیادہ بلندی پر نہ ہونے کی وجہ سے اُتنی سر سبز نہیں جتنی
وادیِ نیلم یا پونچھ و باغ کی وادیاں ہیں اور اِسی وجہ سے سیاحوں کی ترجیحات میں وادی سماہنی شرماہٹ کے ساتھ ہی
داخل ہو پاتی ہے۔ لیکن یہی تو اس وادی کی خوبصورتی ہے کہ بے ہنگم و بے ترتیبے سیاحوں کی دست بُرد سے مکمل
طور پر محفوظ ہے اور جیسی ہے خالص ہے۔
سیاحوں کی کم توجہ کی وجہ سے سماہنی وادی کے نشیب و فراز کافی حد تک پوشیدہ ہیں اور انہی نشیب و فراز میں
سماہنی وادی کی اپسرا جنڈالہ آبشار نے خود کو پہاڑی کنگرے کی اوڑھ میں چھپا رکھا ہے۔ بھمبر شہر کے شمال میں
آپ کو کوئی تیس پینتس کلو میٹر کا سفر کر کے سماہنی چوکی بازار پہنچنا ہے، خیال رہے آپ نے سماہنی نہیں سماہنی
چوکی بازار پہنچنا ہے۔ جیسے ہی آپ بھمبر شہر کو چھوڑتے ہیں تو پہاڑ اپنا رنگ ڈھنگ بدلتے ہیں، یکلخت اوپر کو
اٹھتے ہیں اور شہر سے تھوڑی دوری کے سفر کے بعد چیڑ کے درختوں کی سوندھی سوندھی خوشبوئیں آپ کا والہانہ
استقبال کرتی ہیں اور آپ جنڈی چوتڑہ سے آگے بل کھاتی سڑک پر چیڑ کی چھاؤں میں سفر کرتے ہیں۔ اگر تو عادتاً
چشمہ لگایا ہوا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کے اپنی آنکھ کے فطری عدسوں سے فطرت کے نظاروں کو اپنے آنے والے
خزاں رسیدہ بڑھاپے کے دنوں کے لیے محفوظ کر لیا جائے! اور ہاں وہاں فطرت نے آپ کے لیے موسیقی کا بھی خیال
رکھا ہے کہ پکھیرو اور چیڑ و ہواؤں کا تال میل کسی بھی موسیقی کی بندش سے کہیں بہتر ہے۔
سماہنی چوکی بازار سے بس آٹھ ، دس کلومیٹر کی مسافت پر جنڈالہ نامی گاؤں برلبِ سڑک ہی ہیں اور وہاں اگر آپ خود
کی سواری پر آئے ہیں تو کھڑی کرنا پڑے گی اور تقریباً دو کلومیٹر کی “شریف” قسم کی ٹریکنگ آپکو جنڈالہ آبشار
سے ملوا دیتی ہے۔ آپ سڑک سے دائیں (مشرقی) طرف بنے سنگی زینوں سے نیچے وادی کو اترے ہیں اور برجاہ
پنیاری کے 1993 کے بنے معلق پل پہ جھولہ جھولتے وادی سے اتصال کرتے ہیں اورمنہ نسبتاً طرف قبلہ شمال کے،
کر کے چلتے ہیں اور آپ اکیلے نہیں چلتے آپ کے ساتھ ساتھ کشمیر کی وادیوں کا ٹھنڈا اور شفاف پانی بصورتِ ندی
ساتھ دیتا ہے اور یہاں پہنچ کر منرل پانی کی بوتل بہت ہی حقیر لگتی ہے۔ چلو بھر کر ایک بار پانی کیا پیا جائے بس پھر
دل ہی نہیں بھرتا۔ داغستان کے لوک شاعر حمزہ سدا سا نے کہہ رکھا ہے، ” زندگی میں جھکو تو بس دو بار، شاخ پہ
کھلا پھول توڑنے کے لیے یا پھر چشمے کا پانی پینے کے لیے وگرنہ جھکنا بے مقصد و بیکار ہے۔”
ندی کو یا تو آپ پتھروں پر پاؤں جما کر عبور کرتے ہیں یا اس کو مکمل محسوس کرنے کے لئے اس میں اتر کو اس
کو عبور کرتے ہیں، یہ بڑی بیبی سی ندی ہے خوف والی کوئی بات نہیں۔ نہ اس کی گٰہرائی ہے نہ چوڑائی بس یہ سمجھ
لیجئے کہ ندی ہونے کا مان ہی پورا کرتی ہے یہ تو۔
تھوڑا آگے چل کرندی کے بائیں (مغربی) طرف ایک کٹی پہاڑی اپنی ہئیت کی وجہ سے خود بخود نظر میں اتر سی
جاتی ہے اور بس یوں لگتا ہے کسی بیتے زمانے کے پرانے قعلے کی بوسیدہ ڈھتی سی دیوار ہو۔ بس اسی فصیل نما
دیوار کے سائے سے مغربی جانب مڑ جائیں یہاں وادی تنگ ہو جاتی ہے اورآپ ایک پہاڑی درے میں چلتے ہیں اور چند
قدموں کے بعد آپ جنڈالہ آبشار کو اپنے سامنے پاتے ہیں۔ اوپر پہاڑی کنگرے سے نیچے گرتی آبشار کا اپنا ایک
موسیقیت بھرا ماحول ہے۔ اگرچہ آبشار بہت زیادہ بلندی سے نہیں گرتی مگر اسکا محلِ وقوع اس کو عام سے خاص کر
دیتا ہے کہ گول سیلندر نما جگہ ہے جہاں یہ گرتی ہے اور یہاں تک آنے میں پانی ہر دم آپ کے ساتھ رہتا ہے، رسائی
اتنی آسان کے سب کے لئے دوستانہ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ابھی تک تو یہ بے ڈھنگم سیاحتی حملہ آوروں سے بچی
ہوئی ہے۔ یہاں کیمپ بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ جگہ آبادی سے دور اور پہاڑ کی آڑھ لئے ہوئے ہے۔ خود سے کھانا
پکانا بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ وہ جو فصیل نما کٹی پہاڑی کا اوپر تذکرہ ہوا وہاں سے
ابھرتے یا غروب ہوتے سورج کا نظارہ اور عکاسی بھی کی جا سکتی ہے۔ خشک سالی کہ وجہ سے آبشار میں پانی کا
بہاؤ ہمیں تو کم ملا مگر مقامی راہنما سیف اللہ کشمیری کا کہنا تھا کہ گرما میں خاص طور مون سون میں آبشار اپنے
جوبن پر ہوتی ہے۔
جنڈالہ آبشار کی دریافت کا سہرا سماہنی چوک بازار کے سیف اللہ کشمیری کے سر جاتا ہے جو بنا کسی اداراتی مدد کے
گزشتہ کئی برسوں سے سماہنی کی سیاحت کے فروغ کے نہ صرف خواب دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنا مقدور بھر حصہ بھی
ڈال رہے ہیں۔ وہ سماہنی کے پوشیدہ مقامات کو پہلے خود میلوں میل چل کے دریافت کرتے ہیں پھر پاکستان بھر سے
اپنے دوستوں کو راغب کرتے ہیں اور پھر خود ہی راہنما بن کر ساتھ چل پڑتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ سیف اللہ
کشمیری سماہنی کا ابنِ بطوطہ ہے اور ان سے زیادہ شائد ہی کوئی سماہنی کو جانتا ہو۔ وہ وادی کو ایسے جانتے ہیں
جیسے میں اپنے ہاتھ کی لکیروں کو۔
یوگی بابا نے کہا تھا پہاڑ انسان کے اندر تک بڑی خاموشی سے اتر تو جاتے ہیں مگر ہر دو، تین ماہ بعد اندر وہ بلا کا
شور مچاتے ہیں کے ایک اصیل نسل کے خانہ بدوش کو پہاڑوں سے ملنا ہی پڑتا ہے، تو سماہنی سے میرا ملنا اصل میں
میرے اندرکا شور تھا۔